en-USur-PK
  |  
02

مقام ِ الہٰی بمطابق کلامِ مقدّس

posted on
مقام ِ الہٰی بمطابق کلامِ مقدّس

 Thursday, May 02, 2013 

مقام ِ الہٰی بمطابق کلامِ مقدّس

Right Place of God Almighty According to the Divine Scripture

Sohail Barakat

پاکستان کے معاشی و معاشرتی مسائل بے شمار ہیں، ہمارے ملک میں نفسیاتی مریض بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستانی کلیسیاء  اس سلسلے میں کیا اقدام اٹھا رہی ہے میں اس سے واقف نہیں۔  ہمارے آقا ومولا سیدنا مسیح اگر ہمارے معاشرے کی اقدار کو نا سمجھ سکیں تو کیا فائدہ، اگر وہ ہمارے مسائل کے حل کے لئے کچھ نہ کرسکے تو کیا فائدہ؟ یہ ایسے سوال ہیں جو میں اکثر مسیحی نوجوانوں کی زبان پر سنتا ہوں۔

آئیے ایک نظر ہم اپنے گرد و نواح میں ڈالیں :

ایک سروے کے مطابق پاکستان کی ۱۷ کروڑ سے زائد کی آبادی میں صرف ۳۰۰ ماہر نفسیات ہیں۔ پاکستان میں ۵ سے ۱۰ فیصد آبادی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ ۱۰ لاکھ افراد شدید قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔پاکستان کے ۵ـ۔۰ فیصد سے لیکر ۱ فیصد تک بچے ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔ نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریبا ۷۰ لاکھ ہے۔ ۵۰ فیصدفیصد شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔  ۲۶ سے ۴۰ سال کی عمر میں ۴۲ فیصد ذہنی بیماریاں، خواتین میں ۶۰ فیصد ذہنی بیماریاں، شادی شدہ میں ۵۸ فیصد ذہنی بیماریاں، اور غیر ہنرمند  اور بیروزگار افراد میں ۶۹ فیصد ذہنی بیماریاں ۔۔۔(ڈاکٹر شفیع منصوری)

ایک سوال جو میرے دل و دماغ پر بہت گہرے نقوش چھوڑ چکا ہے بلکہ لگاتا راذیت کا سامان ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک ایماندار کی زندگی میں منفی قوتیں اس قدر برسرپیکار ہوں سکتی ہیں کہ خدا تعالی کی جگہ لے لیں؟ اگر ہم سموئیل نبی کی کتاب پڑھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسی تمام قوتیں بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے آگے سرنگوں ہیںاور اْسی پاک ہستی کی مرضی کی تابع ہیں۔  جب بھی میں کسی ایسے مسیحی سے ملتا ہوں جو بپتسمہ یافتہ ہو، انجیل مقدس باقاعدگی سے پڑھتا ہو اور روح القدس سے کی نعمتوں میں سے کچھ نعمتوں سے معمور ہو اور اس کے باوجود وہ اس قدر خوف میں مبتلا ہو کہ  وہ انجیل مقدس کے بنیادی پیغام سے ہی منکر ہوجائے  تو  مجھے انجیلِ مقدس میں موجود اس واقعہ کا ذکر یا د  آجاتا ہے جہاں جنابِ مسیح ایک عالم ِ دین سے سوال کرتے ہیں کہ تم کلاِم مقدس کو کس طرح پڑھتے ہو؟ بائبل مقدس کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ ہم کسی واقعہ کو اْسکے اصل محل و وقوع کے تناظر میں ضرور پڑھیں ۔

جناب مقدس اوگسطین نے ایکبار کہا تھا کہ انسان ایک ایسی بوتل کی طرح ہے جسکے پیندے میں ایک سوراخ ہو، اسے جتنی بار بھی بھرا جائے وہ خالی ہو جاتی ہے، سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ انسانی زندگی میں ایک خلا ء ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی سے انسان کی روحانی و جسمانی نشوونما کے لئے رکھا گیا اور اسے انسانی ایجادات کسی طور سے بھی پورا نہیں کرسکتیں۔ اس خلا ء کو صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہی پورا کرسکتی ہے ۔لیکن بائبل مقدس ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہرانسان نے گنہگار ہے، نیک صرف ایک ہے  یعنی خدا تعالیٰ !  اسی لئے ہر انسان خدا کے جلال سے محروم ہے۔ لیکن کتاب مقدس کا ایک حصہ انجیل بھی کہلاتا ہے ، جسکے لفظی معنی خوشخبری کے ہیں۔انجیلِ مقدس میں ہم ایک ایسی ذت سے متعارف ہوتے ہیں  جو واشگاف الفاظ میں ہم تمام انسانوں سے ایک سوال کرتی ہے کہ تم میں سے کون مجھ میں گناہ ثابت کرسکتا ہے! یعنی ہمارے خداوند یسوع المسیح۔  یہی تو وہ شبیہ ہیں جن کی صورت پر انسان بنایا گیا ہے ، یہی تو وہ مصور ہیں ہیں جو ہماری اصل کو دوبارہ سے پہلے جیسا کرسکتے ہیں جو ہم گناہ میں گرنے سے پہلے تھے۔

انجیلِ مقدس  وہ کنجی ہے  جو ہمارے تما م روحانی اور جسمانی مسائل کا حل پیش کرتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کے توسط سے ہم فانی انسان، انسانی تاریخ میں ہونیوالے ایک ایسے واقع سے روشناس ہوتے ہیں جو تاحیات  لاثانی رہیگا، اور تمام نسلِ انسان ، چاہے انکا تعلق کسی بھی زمانہ سے ہو الہٰی نور سے منوہوتی رہیگی۔ کیا نوکر اپنے مالک سے بڑا ہوسکتا ہے ؟ جناب مسیح کے لبِ مبارک سے یہ سوال بھی ادا ہوا۔ تو کون سا خادم ِ جناب ِ کے اختیار کو چیلنج کرسکتاہے؟ وہ کون سا شخص ہو سکتا ہے جسکی تعلیمات مسیح خداوند کے زندگی بخش کلام کا  نعملبدل ہوسکتی ہیں؟ یہ بات تو رہی کہ ہماری زندگیوں کا محور مسیح خداوند کی کامل زندگی ہی ہے اور بس، لیکن مسیح خداوند کی زمینی زندگی کا محور کیا تھا؟

یہ و ہ چند سوالات ہیں جن کی روشنی میں ہم آج کی موجودہ  پاکستانی کلیسیا کی اخلاقی گراوٹ سے پر زندگی کا تعین کرینگے، خاصکر کچھ ایسی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں ، جو میرے ذاتی مشاہدے میں آئیں ، اور بائبل مقدس کا طالبِ علم ہونے کی حیثیت سے میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی روحانی مشقتوں کا  نہ تو مسیح خداوند کی زمینی زندگی میں کہیں ظہور ہوا نہ ہی ہمیں جنابِ مسیح کی طرف سے حکم ہوا کہ ہم اپنی جسمانی تکالیف یا روحانی کرب کو دور کرنیکے لئے ایسے حیلے ایجاد کریں۔

یہ آپ کے مشاہدے میں بھی آیا ہوگا کہ بہت سے مسیحی خواتین و حضرات جو کسی طرح کے منفی اثرات سے متاثر ہوتے ہیں وہ اپنی تکالیف یا کیفیت کو دور کرنے کے لئے نام نہاد  خادمِ دین کے بتائے ہوئے ٹوٹکوں پر عمل کرتے ہوئے جو نہ صرف بائبل مقدس کی توہین کرتے ہیں بلکہ جناب مسیح ہمارے خداوند ذولجلال کو انکے اعلیٰ و عظیم مرتبے سے اتنا گرا دیتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ابتدا میں خدا نے اپنے کلام کے ذریعے سے دنیا کو تخلیق نہیں کیا تھا۔ بلکہ کوئی اور ایسی قوت موجود تھی جو خود خدا سے پہلے تھی۔

اب ذرا غور کیجیے، ایک ایسا شخص جسے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہو، اسکا علا ج ممکن ہو، اسے اس طرح کے کسی  واہمے میں ڈال دیا جائے کہ وہ اس خداِ قادر مطلق  کو مقام ِ کبریاسے ہی گرادے۔ وہ قاد ر مطلق  جس نے انسان کو اپنی شکل و صورت پر بنایا، اپنی بنائی ہو ئی دنیا پر حکمرانی کرنے کا تاج اس کے سر پررکھا ، اس انسان سے اتنا پیار کیا کہ جب وہ گنہگار ہی تھا تو اپنا پیارا، اکلوتا جانشین موت کے حوالے کردیا، اس موت کے حوالے جس کا موجد خود انسان تھا۔ خدا نے ہماری ایجاد کردہ تباہی کے فارمولے سے نجات کا راستہ نکال لیا، اس قادر مطلق کی شان میں زبور نویس کیا خوب کہتا ہے، ملاحظہ فرمائیے :

اے میرے خدا تونے مجھے جانچ لیااور پہچان لیا ہے

 تو میرا اٹھنا بیٹھنا جانتا ہے تونے میرے خیال کو دور سے جان لیا ہے

تومیرے راستہ کی اور میری خوابگاہ کی چھان بین کرتاہے،اور میری سب روشوںسے واقف ہے۔

دیکھ میری زبان پر ایسی کوئی بات نہیںجسے تو اے خداوند! پورے طور پر جانتا نہ ہو

تو نے مجھے آگے پیچھے سے گھیر رکھا ہے۔ اور تیرا ہاتھ مجھ پرہے۔

یہ عرفان میرے لیے نہایت عجیب ہیاور میں اس تک پہنچ نہیں سکتا۔

میں تیری روح سے بج کر کہاں جائوںیا تیری حضوری سے کہاں بھاگوں؟

اگر آسمان پر چڑھ جائوں تو تووہاں ہے۔ اگرمیں پاتال میں بستر بچھائوں تو دیکھ تو وہاں بھی ہے۔

اگرمیں صبح کے پر لگا کر سمندر کی انتہا میں بسوں

تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کریگا، اور تیرا دہنا ہاتھ مجھے سنبھال لیگا۔

اور اگر کہوں کہ یقنناً تاریکی مجھے سنبھال لیگی ، اور میری چاروں طرف کا اجالااندھیرابن جائیگا

تو اندھیرا بھی تجھ سے چھپا نہیں سکتا۔ بلکہ رات بھی دن کی مانند روشن ہے۔

اندھیرا اور اجالا دونوں یکسان ہیں۔

کیونکہ میرے دل کو تو ہی نے بنایا، میری ماں کے پیٹ میں تو ہی نے مجھے صورت بخشی

میں تیرا شکر کرونگا کیونکہ میں عجیب و غریب طور سے بناہوں۔ تیرے کام حیرت انگیز ہیں۔

میرا دل اسے خوب جانتا ہے۔

جب میں پوشیدہ بن رہا تھا تو میرا قالب تجھ سے چھبا نہ تھا

تیری آنکھوں نے میرے بے ترتیب مادے کو دیکھا، اور جو ایام میرے لیے مقرر تھے

تو وہ سب تیری کتاب میں لکھے تھے،جبکہ ایک بھی وجود میں نہ آیا تھا۔

اے خدا تیرے خیال میرے لئے کیسے ہی بیش بہا ہیں، ان کا مجموعہ کیسا بڑاہے؟

اگر میں انکو گنوں تو وہ شمار میں ریت سے بھی زیادہ ہیں

جاگ اٹھتے ہی تجھے ساتھ پاتا ہوں۔

دائود نبی کی معرفت یہ زبورہمیں اسرائیلی  دل و دماغ میں بسے ایمان کی بنیادی اکائی سے متعارف کروانے کے لئے ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم (مسیحی) جو اصل شاخ کا حصہ نہیں تھے بلکہ پیوند کئے ہوئے لوگ ہیں۔ بائبل کے بیان کردہ تصور ِ خدا سے کسی طور پر بھی منحرف نہ ہوں،  خود ہمارے خداوند المسیح نے  جو کہ خدا باپ کے ازلی بیٹے ہونے کی حیثیت سے اس باتوں  پر قادر ہیںجو ایک انسان کی خواہش ہو سکتی ہے ،  اپنے زمینی قیام کے دنوں میں اپنی مرضی کو کبھی بھی اپنے آسمانی باپ کی مرضی پر فوقیت نہ دی اور نہ ہی کبھی آسمانی باپ کے آسمانی بیٹے نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ ہم کلام مقدس کی کسی طور پر تضحیک کریں۔ اب اسی بات کو لے لیجئے کہ بائبل مقدس صاف لفظوں میں بیان کرتی ہے کہ خالق صرف ایک ہے  اور وہ قادرمطلق ہے ، اسکی مرضی کے بغیر کوئی ایک چڑیا بھی زمین پر نہیں گرتی، ہمارے تو بال بھی گنے ہوئے ہیں۔ ہمارا آسمانی باپ ہمارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ ہمیں کیا چاہئے۔ کون ہے جو اسکی مرضی کو ٹھکرائے ، کس کی مجال جو اْس عظیم ہستی کے آگے کھڑا ہو سکے۔ وہ آخرت کا موجد ہے ، منصف اعلیٰ ہے اور وہ یہ کام اپنے بیٹے ہمارے خداوند کے ذریعے سے کریگا، لیکن وہ بیٹا جب وقت آتا ہے تو جو پیالہ اْسکے لیے مختص ہے ، پینے سے ہچکچاتا نہیں بلکہ باپ کی مرضی پوری کرنے کے لئے سرنگوں ہو جاتاہے ۔

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے نہیں ہم قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیاہے !

ہمارے  انسان ہونے پر ہمیں فخر ہو نہ ہو، ابتدا میں خدا نے جو کچھ بنایا اسے اچھا کہا، اور انسان کو تو اْس نے پنی صورت ، اپنی شبیہ پر پیدا کیا، کیسے ممکن ہے کہ ہم پر خدا دشمن قوتیں کسی طور پر بھی حاوی ہوسکیں، اور اگر ایسا ہو بھی تو ممکن ہے کہ اس میں خدا کی کوئی خوشی نہیں ہو سکتی ۔ بلکہ جیسا پولوس رسول کی معرفت رومیوں کے خط میں ذکر آیا ہے کہ انسان اپنی خواہشوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر گناہ میں پھنستاہے۔  میں جب بھی انجیل ِ مقدس کا مطالعہ کرتا ہوں تو ایسا مقام تلاش کرنیکے کی کوشش کرتاہوں جہاں یہ لکھا ہو کہ ایک موقع پر ہمارے مسیح خداوند کے فلاں فلاں ماننے والے پیرئو کو منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھی خداوند کو اپنا نجات دہندہ قبول کرنیکے بعد! اس تیاری کیبعد کہ جب وہ شخص جناب مسیح کا ّآخری  بپتسمہ پانے کو بھی تیار ہوں جو خداوند کے قریبی شاگرد اپنی تربیت کے ابتدائی دنوں میں پانے کے چنداں بھی خواہش نہ رکھتے تھے اسی لئے روزہ کے محتاج تھے۔

آخر میں میں صرف آ پ کے گوش گزارش یہ کرتا چلوں کہ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں کا معیار تعلیم ایسا ہے کہ اس کا کوئی بین الاقوامی معیا رنہیں، معیار زندگی ایسا ہے کہ اس میں زندگی کے کوئی آثار نہیں ملتے ، سوچ اور افکار ایسی کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی قوم کمپوٹر لیکر بغیر بجلی اور ضروری سوفٹ وئیر ز کے غاروں میں بیٹھ کر کسی جادو کے ذریعے سے اپنے تمام مسائل حل کرنیکی کوشش کررہی ہو۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں لائبریریز کا کوئی سسٹم موجود نہیں، بجلی اور پانی کے فقدان کا حل بھی شاید قیامت کے روز ہی ممکن ہو، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاید ہماری قوم تب تک ایسے مسائل میں رہتے رہتے اتنی عادی ہو جائیگی کے شاید انہیں دنیا کی تباہی پر کوئی افسوس ہو نہ ہو لیکن دوسروں کو بجلی اور پانی کے بغیر دیکھکر ایک روحانی آاسودگی سے ضرور لطف اندوز ہو ں !

مسیحا کا بھی منہ اترا ہواہے

صلیب فکر پہ لٹکا ہوا ہے

یہ دیواریں مجھے پاگل نہ کردیں

جو ہونا ہے وہ سب لکھاہوا ہے

 مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے مالک ، جناب ِ المسیح کے بارے میں اناجیل ِ مقدس میں یہ بھی مرقوم ہے کہ وہ خدا اور انسان دونوں کی نظر میں مقبول ہوتے چلے گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے عمائدین اپنے مسیحی نوجوانوں کے ایسا کیا کررہے ہیں کہ وہ خدا کی نظر میں مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ انسانوں کی نظر میں بھی مقبول ہو جائیں۔  سوال پوچھنے کی عادت کا اگر برا نہ منائیں تو  میں یہ گزارش کرنے کی ضرور سعی کرونگا کہ پاکستانی مسیحیوں کے لئے جنکی تعداد نہ جانے کتنی ہے؟ ( کیونکہ اب تک میں نے کسی چرچ کی جانب سے کسی ایسے اقدام کی کوشش نہیں دیکھی گئی کہ اپنے ایسے مسیحی بہن بھائیوں کو جو کہ ذہنی عارضہ میں مبتلا ہوں کے اعداد و شمار جمع کریںاور انہیں ریسرچ بیسڈ مفت کونسلنگ مہیا کریں جہاں ، مسیحی تھیالوجنز (علمائ) اور سائیکٹریسٹ ملکر ہماری نوجوان نسل کو جدید اطوار سے مسیح خداوند کے اور قریب لیکر جاسکیں؟  اس بات سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنے خدا کو امحدود نہ کریں کہ وہ صرف ہماری مشکلات میں ہی اپنی خدائی ظاہر کرسکتا ہے، بلکہ خدا کو ہماری زندگیوں میں ایسا مقام ملنا چاہیے کہ ایسا لگے کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں۔ کیونکہ جس سے ہم محبت کرتے ہیں وہ ہمارے دل و دماغ پر نقش ہو جاتاہے۔ اور ایسے دل و دماغ پر کوئی اور قوت حاوی نہیں ہوسکتی !

  اسکے علاو ہ جدید ریسرچ کے مطابق جسمانی ورزش کے ذریعے سے بھی ذہنی دبا ؤ کا موثرٔ علاج ہو سکتا ہے جو برطانیہ سمیت مغرب میں بہت تیز ی سے مقبولیت حاصل کررہا ہے، کیونکہ جدید ریسرچ کے مطابق دواؤں کے ذریعے سے مرض کے اصل سبب تک پہنچ کر اس کا سدباب کرنا تقریباً ناممکن ہے اور یہ کہ دوا ساز کمپنیاں ذہنی عارضہ سے متعلق دواسازی کے ذریعے زیادہ منافع حاصل کرنیکے لیے زیادہ فکرمند نظر آتی ہیں۔

ان تمام باتوں کو آپ کے گوش گزار کرنے کیبعد میں یہ امید کرتا ہوں کہ میرے وہ تمام مسیحی دوست جو انجیل کی منادی میں سرگرم عمل ہیں وہ ان تمام مسائل کیطرف سے غافل نہ رہیں ۔ بائبل مقدس کے مطابق زمین خدا کی چوکی ہے اور مسیحی خادمان دین ، بمطابق اناجیل ، صرف اور صرف نکمے غلام ، اور غلام اپنے آقا سے کبھی بڑھا نہیں ہوتا۔ ہم معجزوں کے منکر نہیں، لیکن خداوند خدا کی بلاوجہ آزمائش نہیں کرنا چاہتے، ہم مسیح خداوند پر اس لئے ایمان نہیں رکھتے کہ وہ ہر طرح کے معجزوں پر قادر تھے، بلکہ انجیل کے مطابق کہ صرف آپ کی ذات ِ مبارک کے  ذریعے سے ہمیں ان مقاموں تک رسائی ہوتی ہے جن کے لئے ہم بنے ہیںلیکن قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ  ہمارے خداوند کی پیدائش کے موقع پر جو خبریں فرشتوں کے توسط سے ہم تک پہنچیں ،  ان میں کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ وہ اپنے معجزوں کے ذریعے سے دنیا کو مرعوب کرینگے ؟ بلکہ یہ کہ وہ اپنے لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہونگے؟

ٰٰٰٰجناب ِ مسیح کے پیارے حواری محترم یوحنا کی معرفت ہمیں یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ صرف سچ ہی آزادی بخش سکتا ہے۔ اور سچ خود خداوند یسوع مسیح کی ذات اقدس اور انکی تعلیمات میں پوشیدہ ہے، انکی ذات کی پرستش بغیر انکی تعلیمات پر عمل کے گھاٹے کا سودا ہے ، خود خداوند ایسا کہہ چکے ہیں ، آپ اس سلسلے میں انجیل مقدس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔  اور اسکے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے استفادہ بھی نہایت ضروری ہے ۔ مثال کیطور پر بقراط  ۳۸۰  قبل از مسیح میں لکھتا ہے کہ ’  جسم کی توانائی اور تندرستی کے لئے ضروری ہے کہ عقل پختہ اور تنومند ہو‘۔ اور ہمیں بھی کلام مقدس میں یہ حکم ملا ہے کہ ہم اپنے خداوند اپنے خدا کو اپنے سارے دل ، اپنی ساری جان اور اپنی ساری ۔۔۔۔۔۔

پیار کریں۔  میں نے کچھ جگہ خالی چھوڑ دی ہے کہ آ پ اسے پر کریں، اور ایسی تمام باتوں کو ، جو کسی قسم کی پریشانی کا باعث ہوں بائبل مقدس کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی روشنی میں ضرور دیکھیں، کیونکہ یاد رکھئیے کہ خداوند کی بشارت دینوالوں میں سے جناب حضرت  لوقا  طبیب اپنی مثال  آپ ہیں۔

اس شعر کے ساتھ اس مضمون پر سے فی الوقت  اپنا قلم اٹھا تا ہوں

اچھے عیسیٰ ہو، مریضوں خیال اچھا ہے

ہم مرے جاتے ہیں ، تم کہتے ہو حال اچھا ہے !

شکریہ !

از سہیل برکت

 

 

 

 

 

 

Posted in: بائبل مُقدس, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (20059)
Comment function is not open
English Blog