en-USur-PK
  |  
15

خداشناسی کا وسیلہ

posted on
خداشناسی کا وسیلہ

Resource of God Acquaintance

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

خداشناسی کا وسیلہ

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز

 

            گذشتہ لیکچر میں اس شناخت کی ضرورت ان پانچ باتو ں سے  جو اس میں مذکور ہیں دکھلائی  گئی تھی لیکن زیادہ غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ  یہ ضرورت انسان کی روح میں مرکوز ہے اور یہ روح کی ایک خواہش یا اقتضا ہے۔

          اگرچہ اس خواہش  کو جوسب کی روحوں میں موجود ہے ۔ بعضوں نے دنیاوی لذایز کے حصول میں مصروف رکھا ہے ۔ تو بھی بنی آدم کا ایک انبوہ کثیر اپنے ریاضات  ومجاہدات  وخیالات  سے اس کا  ثبوت دیتا ہے اور ہر دو فریق  کی حالت  کا بغور معائینہ  کرنا اس الہیٰ شناخت  کی ضرورت  کو انسانی  روحوں  میں مرکوز دکھلاتا ہے ۔

          اگر کوئی  کہے کہ  دیوانوں  میں اور ان بچوں میں جو حیوانوں کے ساتھ جنگل  میں پلتے ہیں خدا کا خیال بھی نہیں ہے  پس کیونکر  کل بنی آدم کی روح میں اس کا ہونا  یقین کرسکتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ  انسان جب تک انسانی درجہ میں ہے اس وقت تک یہ خواہش  ضرور اس میں پائی جاتی ہے اور جب وہ اپنے  درجہ سے خارج ہوکر حیوان کے درجہ میں پہنچ جاتا ہے تب اس میں اس کے حقیقی  اقتضا کی تلاش کرنا فضول ہے ۔دیکھو اندھا آدمی دیکھ نہیں سکتا گونگا بول نہیں سکتا بہرہ سن نہیں سکتا  لنگڑا چل نہیں سکتا  بے وقوف  سمجھ نہیں سکتا تو بھی جو انسان صحیح وسالم ہیں ان میں یہ صفات  پائی جاتی ہیں پس بعض  معذوروں  کے سبب سے  جن سے خاصوں کی کلیت  میں فرق نہیں آسکتا ہے۔

          جب یہ ضرورت  روح میں جاگزین ہے تو اس کی تکمیل  بھی ممکن ہوگی۔ کیونکہ جس نے روح  میں خدا شناسی  کی خواہش رکھی ہے وہ اس خواہش  کے پورا کرنے پر بھی قادر ہے ۔ ورنہ حکیم علی الاطلاق  کا فعل عبث ٹھہریگا اور یہ محال ہے ۔

          دیکھو جسم میں پیدا کرنے والے نے جو خواہشیں رکھی ہیں مثلاً کپڑے  کی خواہش  کھانے پینے  کی خواہش  وغیرہ  اسی نے یہ انتظام  بھی کیا ہے ۔ کہ سب کو خوراک  اور پوشاک  بطور مناسب پہنچے۔ اسی طرح  روح میں جو جو خواہشیں  اس نے پیدا کی ہیں کیا ان کے انتظام  پر وہ قادر  نہ ہوگا ضروری ہوگا روح کی خواہشیں  بھی وہ پوری کرے گا او رکرتا ہے۔

          پس یہ خواہش  کہ میں اپنے خدا کو پہچانوں لوگوں میں ضروری پائی جاتی ہے لیکن اس کی تکمیل  کے طریقے  مختلف  آدمیوں کے ایجاد کئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً :

          بہت سے لوگ ہیں جو خدا شناسی کے لئے تحصیل  علوم کی طرف  زیادہ متوجہ ہوتے ہیں  لیکن اس سے بجز  اس کے کہ عقل زیادہ روشن ہوجائے اور کوئی خاطر  خواہ نتیجہ  نہیں نکل سکتا ہے اور بہت سے  ایسے ہیں جو بزرگوں کے پاس جاتےہیں  تاکہ ان سے خدا شناسی سیکھیں  چنانچہ وہ انہیں  ریاضتیں اور مجاہدات  اور ذکر فکر اور کچھ دیگر وظائف سکھلاتے ہیں  لیکن ان سے بجز  نفس کشی اور وہم چیز ے دیگر حاصل نہیں ہوتی۔

          اور بعض ایسے ہیں  جو قیاسات پر زیادہ زور دیتے ہیں  مگر یہ صرف عقلی برگشتگی ہے جس سے یا تو یاس یادیوانگی  یا سراسمیگی پیدا ہوتی ہے اور روح کی تشنگی ہر گز نہیں بجھتی ۔ جنہو ں نے  ان سب باتوں کا تجربہ  کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ سب باتیں  سچ ہیں  اور یوں ہی ہیں۔

          ہمارے زمانہ میں اب اکثر لوگ دلائیل پر بہت زور دیتے ہیں پہلے اس ملک میں ریاضت  پر بہت زور تھا مگر جب سے علم میں ترقی ہوئی اور بائبل آئی اس وقت سے یہ حال ہوا ہے کہ  تصادم خیالات  علمیہ اور الہامیہ  کے سبب اکثر  لوگ دلائیل  عقلیہ  کے زیر سائے پناہ لینے کو دوڑتے ہیں  اور عقل  کو صحیح  شناِخت  کا کافی  وسیلہ جانتے ہیں  جس سے بڑی گڑ بڑی مچی ہے۔

          ہم یہ کہتے ہیں  کہ عقل خدا شناسی کاا یک وسیلہ ضرور ہے کیونکہ  وہ انسان میں موجب  شرافت  اور موجب تکلیف  شرعی ہے بلکہ ایک باطنی آنکھ سے مگر وہ کامل اور کافی  وسیلہ ہر گز نہیں  ہے پس ہم نہ اسے رد کرتے ہیں اور نہ صرف اس کی ہدایت ہی کو کافی جانتے ہیں  جس کا سبب یہ ہے کہ  ہمارے سب اعضا اور حواس اگر چہ ہماری اس زندگی کے رفع حاجات کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر بیرونی طاقت  کے بغیر وہ کافی نہیں ہیں۔ مثلاً جب تک بیرونی  غذا سے طاقت  اعضا میں نہ آئے  وہ سب بیکار ہیں۔ آنکھ اگرچہ دیکھنے کا  آلہ ہے لیکن بیرونی روشنی کی سخت  محتاج ہے روح اگرچہ  بدن کو زندہ رکھتی ہے لیکن سرچشمہ حیات سے قوت حاصل کرنے کی محتاج ہے ۔ خیالات  اگر چہ جولانی  دکھلاتے ہیں  مگر غذائی  اور اعلی ٰ طاقت سے بغیرہ وہ کچھ نہیں کرسکتے۔

          تو کیا صرف عقل ہی ایسا جو ہر ہے جس کو بیرونی طاقت  کے بغیر  کافی سمجھا جائے اور وہ تو گھٹتی بھی ہے اور بڑھتی بھی ہے اور اپنے فیصلوں کی ہمیشہ  ترمیم بھی کیا کرتی ہے اور سارے  اختلاف  کی بنیاد بھی یہی ہے پس عقل  کس طرح  خدا شناسی  کا کافی وسیلہ ہوسکتی ہے اس لئے  ہم کہتے ہیں  کہ عقل  عمدہ چیز  تو ہے مگر کافی نہیں ہے پس اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھے رہنا کوتاہ اندیش  آدمی کا کام ہے جو آخر  میں پچتائے گا۔

          دیکھئے تو کہ عقل ہماری بعض ضروریات  کے دریافت کرنے میں کیسی  لاچار او ربے بس  ہوجاتی ہے ۔ مثلاً  انسان کی ا بتدائی  حالت  کا بیان کچھ نہیں بتلاسکتی کہ انسان کیونکر  پیدا ہوا۔ اسی طرح ہماری انتہا کا حال نہیں بتلاسکتی کہ ہم کیا ہونگے۔ وہ تو  اس شریعت  کے سمجھانے میں بھی غلطی کرتی ہے جو ہمارے دلوں پر لکھی ہوئی ہے ۔ مثلاً ہندوؤں کی عقل  کے اعتبار سے  جو باتیں  اچھی معلوم ہوتی ہیں دوسروں کی عقل کے اعتبار سے  وہی باتیں  بری معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں تک  کہ خدا کی ذات وصفات  کا بیان بھی تسلی   بخش نہیں کرسکتی  اگر چہ خدا کی ہستی  پر گواہی دیتی ہے ۔لیکن  یہ گواہی  ہماری تسلی  کے لئے کافی نہیں  ہوسکتی ہے۔

          یہ چار باتیں یعنی  انسان کی ابتدا اور انتہا  ۔نیکی اور بدی خدا کی ذات وصفات  ایسی ہیں  کہ جب تک  ہمیں تسلی بخش طور پر  نہ سمجھائی جائیں  تب تک ہماری  روحوں  کی پیاس بجھ نہیں سکتی اور یہ بات   عقل سے نا ممکن ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ  صرف عقل سے نہ خو د شناسی ہمیں حاصل ہوسکتی ہے اور نہ خداشناسی ۔

          پس جب عقل کی یہ کیفیت  ہے کہ امور بالا کے متعلق  کچھ نہیں  بتلاسکتی ہے تو پھر بتلاؤ کہ اقتضائے  شناخت  الہیٰ جس کی بڑی ضرورت ہے  کس طرح  تکمیل  تک پہنچ سکیگا۔

          کیا ہمارا پید ا کرنے والا ہماری اس ضرورت  اور اس لا چاری  سے واقف نہیں ہے یا اس کی تکمیل  پر وہ قادر نہیں ہے یا یہ خواہش بیجا ہے اور صرف وہم سے ہم میں پیداہوگئی ہے ؟ ہرگز نہیں۔

          بیشک خدا نے یہ خواہش ہمارے دلوں میں رکھی ہے  اور وہ خوب جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں یہ خواہش بے چینی کا باعث  ہوگی اور ہم اس کو پورا کر نہیں سکتے ہیں  ہم تو جسمانی خواہشوں یعنی بھوک پیاس وغیرہ کو بھی پورا نہیں کرسکتے ہیں چہ جائیکہ  کہ اس اعلیٰ خواہش کو پورا کرسکیں۔

          ہماری کیا طاقت ہے کہ قحط سالوں میں وبائی بیماریوں میں جبکہ لاکھوں انسان مرجاتے ہیں اپنی عقل سے اور اپنے انتظام سے خوراک پیدا کرسکیں یا ان امراض کو دفع کرسکیں۔ جب جسمانی خواہشوں کےجسمانی تکمیل کے درمیان ایک غیبی  طاقت  مصروف کا رنظر آئی  ہے تو روحانی  خواہشوں کی تکمیل  کے لئے غیبی اور  آسمانی مدد کیونکر  کام کرسکتی ہے۔ شناخت  الہیٰ کے لئے خدا سے مدد آنی چاہیے  اور یہ مدد وہی ہے جس کا نام الہام ہے ۔

          پس شناخت الہیٰ کے لئے الہام کی بے حد ضرورت ہے اس طور پر کہ عقل جو ایک ناکافی  وسیلہ ہے اور الہام سے قوت پاکے پورا  اور کافی  وسیلہ بن جائے ۔

          آنکھ جسمانی چیزوں کے دیکھنے کا وسیلہ ہے مگر سورج سے روشنی حاصل کرکے ۔ اسی طرح عقل خدا شناسی  اور خود شناسی  کا وسیلہ ہے مگر آفتاب صداقت یعنی الہیٰ کرنوں یا الہام سے روشنی حاصل کرکے  اسی طرح  روح کی خواہش بھی پوری ہوسکتی ہےلیکن الہام الہیٰ کی مدد سے ۔

          اب میں صاف کہتا ہوں کہ جس طرح ہماری روح میں خدا شناسی  کا اقتضا موجود ہے اسی طرح  ہمارے خالق کی الوہیت  میں اس اقتضاکی تکمیل کی امید ہونی چاہیے ۔

          اگر ہم اپنی پرورش اور اپنے دیگر حالات پر غور کریں تو ہمیں خوب معلوم ہوسکتا ہے کہ ہمیشہ ہماری کمزوری اورلاچاری  میں اس کی قوم اور اس کی طاقت  اور اس کی حکمت  اور اس کی مسبب الاسیابی ہمارے شامل حال رہی ہے تو کیا اب ہم ایسے ہوگئے کہ الہام کو ضرورت سے بے نیاز  ہوگئے حالانکہ  وہی عقل جو ہماری ضروریات  مذکورہ بالا میں لاچار ہے اب بھی ہم موجود ہے پس یہ بڑی مغروری اور بڑی نادانی کی بات ہے  کہ انسان الہام کی طرف  سے بے پرواہ ہو اور صرف اپنی عقل پر تکیہ کرکے ہلاک ہو۔

          جو شخص یہ کہتا ہے کہ  الہام کی ضرورت نہیں ہے جیسے کہ برہمو سماجی کہتے ہیں گویا وہ یہ کہتا ہے کہ  آنکھ کے لئے آفتاب کی ضرورت نہیں یازندگی کے لئے ہوا کی ضرورت نہیں ہے ۔

          شناخت  الہیٰ  کے لئے  عقل انسانی کو الہام الہیٰ سے منور ہونے کی بڑی ضرورت ہے بغیر   اس کے عرفان الہیٰ نا ممکن ہے ۔نبی کے اس قول کو یاد کیجئے  جہاں لکھا ہے کہ "تیرے سب فرزند خدا سے تعلیم پائینگے ۔" خدا سے تعلیم پانا یہی ہے کہ ہماری عقلیں  الہام یا انوار  الہیٰ سے منور ہوکر خدا شناسی  حاصل کریں۔

          اب تک اس بات کا ذکر نہیں ہوا ہے کہ صحیح  الہام کس کتاب میں ہے اگرچہ میں خوب میں جانتا ہوں  کہ صرف بائبل میں صحیح  الہام ہے لیکن اس کا ذکر پھر آئیگا  اس وقت اس امر کا ذکر ہے شناخت الہیٰ کا وسیلہ عقل مع الہام ہے نہ تنہا  عقل اور تنہا الہام کیونکہ جب ہماری آنکھیں کھلی ہوں اور سورج بھی نکلا ہو تب ہم اچھی طرح دیکھ سکتے ہیں اور جب آنکھیں  نہ ہوں اور رات  ہو تو اندھیرے میں ٹٹولتے پھرینگے اس لئے عقل والہام دونوں کی ضرورت ہے۔

          اور یہ ہدایت  عقل ہی کی ہے کہ انسان الہام کا محتاج ہے اور بندوں میں اخذ کرنے کا اقتضا اور خدا میں عطا کرنے کا اقتضا موجود ہے پس خدا شناسی  کے لئے صحیح  الہام کی تلاش سب پر واجب ہے جو کوئی اس طریقہ  سے ہٹ جاتا ہے وہ ابد تک بھلائی کا منہ نہ دیکھے سکے گا۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (16239)
Comment function is not open
English Blog