en-USur-PK
  |  
14

خدا کی پروردگاری کیا ہے؟

posted on
خدا کی پروردگاری کیا ہے؟

WHAT IS PROVIDENCE OF GOD?

BY PROF: LOOTFY LEVONIAN

TRANSLATED BY

REV.S.N.TALIBUDIN B. A

 

خدا کی پروردگاری کیا ہے؟

 

پروفیسر:لطیفی لیونیان

مترجم

علامہ ایس ۔این طالب الدین صاحب بی ۔ اے

خدا کی پروردگاری کا مألہ :۔

خدا کی پروردگاری میں خدا کی کا ئنات سے واسطہ اور انسان کے ساتھ خدا کے برتاؤ کا مألہ در پیش ہے ۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ خدا کل کائنات کا خالق ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اسے فطرت کے وقوعات سے انسانی افراد کی زندگی کے معاملات سے اور تاریخ انسانی کے سلسلہ سے کوئی سروکار ہے۔ خدا کی پروردگاری کو تسلیم کرنے سے مراد ہے سلسلہ کائنات پر خدا کی حاکما نہ قدرت پر ایمان رکھنا ۔ اس سے معاًیہ سوال پیدا ہو تا ہے۔ کہ رضائے الٰہی کے ساتھ انسان کی آزادی کا کیا واسطہ ہے۔ یہ کیسا مألہ ہے کہ ہم اپنے اقبال میں آزاد اور مختار ہیں۔ مگر ان پر خدا کی شاہانہ مرضی اور حکمت بھی مسلط ہے۔ یہ کیسےممکن ہے کہ سلسلہ تاریخ میں انسانی تجویز اور تدبیر بھی کام کرتی تا ہم اس سے خدا کے ارادوں کی بھی تعمیل اور تکمیل ہوتی ہے۔ نیز دنیا میں جو دکھ اور مصیبت ہے اس کی بنا اور حل کیا ہے۔ نیکو کار کیوں دکھ سہتے ہیں۔ دنیا میں بدی کیوں ہے۔ شریر کیوں پھولتے اور پھلتے ہیں۔ ان چند سوالوں کا خدا کی پروردگاری سے براہِ راست تعلق ہے۔یہ ناممکن الحل ہیں۔ تا ہم انسان کے لئے بلکہ انسب ہے۔ کہ ان پر غوروخوض کرے۔ اور ان کے معنی کو صحیح طور پر سمجھنے کی حتیٰ الوسع سعی کرے۔

خدا کی پروردگاری کے مختلف نظرئیے:۔

خدا بمنزلہ شرع۔ اس مألہ کے جو حل پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں دو ایسے ہیں جو انتہائی اور متضاد نقطہ ہائے نگہ پیش کرتے ہیں۔ ان دونوں کی تردید لازمی ہے۔ ان دونوں کی بنیاد خدا کے متعلق متفرق تصورات ہیں۔ ان میں سے ایک تصور یہ ہے کہ خدا اس دنیا پر اٹل اوربے تبدیل قوانین سے حکومت کرتا ہے۔ اور دوسرا تصور یہ ہے کہ خدا حاکم مطلق ہے۔ جو متلون طبیعت اور غیر مستقل ارادہ سے دنیا پر سلطنت کرتا ہے۔ چنانچہ اول تصور کے رو سے خدا کو ایک قانون ساز ہے ۔ جو طبعی ۔ حیوانی اور اخلاقی طبقات میں سخت قوانین اور ضابطے نافذ کرتا ہے۔ جن کے عمل اور اثر سے واقعات ایک کل کی طرح ظہور ہوتے رہتے ہیں۔ گویا کائنات ایک کار خانہ ہے۔ جس کی کلوں کو خدا نے ازل سے چلتا کیا ہوا ہے۔ اگر مادہ اور کل جاندار اور انسان ان قوانین کے مطابق عمل کریں تو نتیجہ کا میابی ہوتا ہے۔ اور زندگی میں تربیت اور ہمواری آ جاتی ہے۔ لیکن اگر ان قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی کی جائے تو نتیجہ ابتری اور پریشان حالی ہوتا ہے۔ اس تصور اور عقیدہ میں کچھ جان تو ضرور ہے۔ مگر حقائق اور واقعات خدا کی حکومت کو ایک کارخانہ کے کل پرزوں کا نظام ثابت نہیں کرتے۔ طبعی عالم کی تشریح کے لئے علم طبیعات کے عالم بھی اس عقیدہ کو خاطر میں نہیں لاتے۔ زمانہ ماضی کے سائنسدان تسلیم کرتے ہیں کہ مادے کی اندرونی ساخت اور کیفیت میں کچھ نہ کچھ آزادی کے سراغ نظر آتے ہیں۔ نباتاتی اور حیوانی زندگی کی بھی کیفیت ہے۔ اور انسانی زندگی میں تو مشینی کاروائی قطعاً ندار د ہے۔ انسانوں کے باہمی تعلقات اور تاریخ کے حقائق تو اس امر کی قطعاً تائید نہیں کرتے کہ اخلاقی عالم میں کوئی ایسے اٹل اور ازلی قانون موجود ہیں جو کل کی طرح از خود عمل کرتے اور مقررہ نتائج پیدا کرتے ہیں۔ البتہ اس میں کلام نہیں کہ بدی سے انجام کا رتباہی اور راست بازی سے اصلاح اور تعمیر برآمد ہوتی ہے۔ مگر یہ کلیہ قاعدہ نہیں کہ بد کار ہمیشہ عقوبت سہتے اور راست کا ر بھلائی اور برکت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ انسانی زندگی کے سلسلہ میں یہ بات قطعاً نظر نہیں آتی کہ کوئی اس کے پنے تلے ضابطے موجود ہوں جو کل کی طرح عمل کرتے ہوں۔ یہ دنیا محض اندھا دھند کام کرنے والا کار خانہ نہیں۔ بے شک یہ ایک پیچ در پیچ نظام ہے۔ اور اس کے سلسلہ م یں کئی عناصر ہیں۔ جو اثر انداز ہوتے ہیں۔

خدائے مطلق :۔

دوسرا تصور خدا کو ایک قادر مطلق خود رائے حاکم ٹھہراتی ہے۔ جو کائنات پر اپنے ادہام سے حکمرانی کرتا ہے۔ اس تصور کے اعتبار سے خدا اور کائنات کے تعلقات کے لئے اور انسانوں سے اس کے ربط ضبط کے لئے کوئی معینہ قاعدے اور ضابطے نہیں ہیں۔ نہ مادے میں کوئی خواص ثابت ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی اخلاق کے دائرہ میں کوئی قاعدے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی ہوں بھی تو وہ خدا کی مرضی کی تحدید یعنی روکاوٹ اور حد بندی کا کام کریں گے۔ مگر اس تصور اور عقیدہ کی رو سے تو خدا قادر مطلق ہے۔ اور نتائج کو خاطر میں لائے بغیر جو چاہتا ہے۔ سو کرتا ہے۔ تمام نیک و بد ۔ اور چھوٹے اور بڑے کل معاملات خدا سے صادر ہوتے ہیں۔ اور اس کی رضائے مطلق کا ظہور ہیں۔

یہ تصور خدا کی قدرت اور اختیار کا تو تحفظ کرتا ہے۔ مگر انسان کی آزادی کو سلب کرتا ہے۔ اور آزاد مرضی سے فعل کرنے کی گنجائش نہیں چھوڑتا۔

البتہ انسان میں ایک اضافی آزادی ضرور رہ جاتی ہے۔ ہم اپنے تجربہ کی بنا پر کہہ سکتے ہیں۔ کہ ایک خاص حد تک ہم آزاد مرضی کا احساس ضرور رکھتے ہیں۔ اور یہ آزاد مرضی ہم کو تمام افعال اور حرکات کے لئے ذمہ دار اور جواب دہ ٹھہراتی ہے۔ اگر یہ درست نہیں۔ تو نہ تو کسی انسان کی تعریف و تحسین کچھ معنی رکھتی ہے۔ اور نہ ہی کسی انسان کو تنبیہ کرنا کچھ معنی رکھتا ہے۔ بلکہ سزا اور جزا بھی بے معنی اور لایعنی ثابت ہوتے ہیں۔ نیز یہ تصور اور عقیدہ خدا کو کل نیکی اور بدی کا سر چشمہ قرار دیتا ہے۔ اور انجا م کا ر دنیا کی تمام پریشانی اور زبوں حالی کا منبع ٹھہراتا ہے۔ اگر خدا ہی دنیا میں واحد کار کن ہستی ہے۔ اور کل امور اسی سے صادر ہوتے ہیں۔ تو بدی کا مصدر اور منبع بھی وہی ہے۔ ایسی ہستی پر بھلا ہم کس طرح اعتبار اور ایمان رکھ سکتے ہیں۔ جس سے بے انصافی اور ناراستی نکلتی ہیں۔ ہم تو صرف اس خدا پر ایمان لا سکتے ہیں۔ جو حامل راست اور نیک ہے۔

علاوہ ازیں یہ دونوں تصورات خدا کی شخصیت کا صاف انکار کرتے ہیں۔ پہلے تصور میں تو خدا اور قوانین قدرت ایک ہی ثابت ہوتے ہیں۔ اور خدا کی جدا گانہ ہستی ثابت نہیں ہوتی۔ اس میں ذاتی قوت عمل نہیں رہتی ۔ بلکہ قوانین قدرت کا دوسرا نام خدا ہے۔ جو قوانین قدرت کے تماشہ کا بے بس تماشائی ثابت ہوتا ہے۔ اور انسان کی معاونت کے معاملہ میں قدرت کے اٹل اور بے خطا قوانین کے مقابلہ میں بے دست و پارہ جاتا ہے۔ حالانکہ شخصیت سے مراد ایسی ہستی ہے۔ جو کسی کام میں صرف ایک عنصر نہیں اور نہ ہی ان طاقتوں کا جو قدرت کے غیر معمولی مظاہروں اور خوارق پر حاوی اور حکمران ہیں تماشائی ہے۔ بلکہ کسی کاروائی میں ہوتا ہوا بھی اس سے بالا اور بلندرہتا ہے۔ اور حسب منشا نتائج پیدا کرنے کے لئے اس پر اختیار اور آزاد مرضی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔

دوسرے تصور میں بھی خدا کی شخصیت کا افکار ایک اور ہی طریقہ پر کیا گیا ہے۔ تعفل کی شخصیت کیا یک نمایاں خصوصیت ہے۔ ایک شخص ہمیشہ سوچتا ہے۔ ارادہ کرتا ہے اور اس کے افعال میں معقولیت ہوتی ہے۔ نہ کہ وہم ہے۔ اور بعض کو جنت عطا کرتا ہے۔ نہ تو معقول شخصیت کا مالک ثابت ہو سکتا ہے۔ اور نہ ہی اس کی قوت فیصلہ صحیح ہو سکتی ہے۔ وہ یا تو ظالم ہو گا یا دیوانہ۔

پس یہ دونوں تصور اور عقیدے خدا کی پروردگاری کی صحیح تاویل نہیں کر سکتے ۔ قدرت کے قوانین کے عمل کے ساتھ ساتھ خدا کے ذاتی اور شاہانہ ارادہ اور انسان کی فعل مختاری کا بھی تحفظ لازمی ہے۔ تا ہم اگر کوئی تیسری تاویل پیش کی جائے۔ تو تجربہ اور مشاہدہ اس کی تصدیق نہیں کرے گا۔ پھر اب ان دو تاویلوں میں مطابقت کس طرح پیدا کی جائے۔ بس خدا کی پروردگاری کے متعلق ہی ہماری دقت ہے۔

خدا کی پروردگاری کوئی خشک نظریہ نہیں:۔

اس مألہ پرغور کرتے وقت ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا کی پرووردگاری کوئی خشک فلسفہ نہ نظریہ نہیں۔ بلکہ یہ ایک اعتماد اور ضمانت ہے۔ کہ انسا ن کی شخصی زندگی ایک فوق الانسانی قوت اور عقل کے زیر اپر داخت ہے۔ اس اعتماد کی بنیاد اس ایمان پر ہے۔ کہ خدا ایک مشخص ہستی ہے۔ اور انسانو ں کے ساتھ اسکا شخصی برتاؤ ہے۔ ایک مشخص خدا کے ساتھ شخصی تعلقات مذہبی تجربہ کی جان ہے۔ اور کل مذہبی عقائد کا ماخذ اور منبع یہی اساسی حقیقت ہے۔ ۔ مثلاً ایمان کے مألہ کو لیجئے ۔ مذہب میں ایمان کے معنی صرف خدا کے وجود کا یقین نہیں۔ (ایسا ایمان توشیطان بھی رکھتا ہے۔ ) بلکہ ایک مشخص خدا پر شخصی اعتماد ہے۔ نیز گناہ محض کسی مجموعہ قوانین کی کسی ایک دفعہ کی خلاف ورزی کا نام نہیں بلکہ خدا سے شخصی دوری اور غیریت جیسی کہ ایک بیٹے کی باپ سے مغایرت ہو گناہ ہے۔ اس امید کو آیندہ زندگی میں ہم گناہ کی سزا سے بچ جائیں گے۔ معانی نہیں کہتے بلکہ معافی خدا کے ساتھ تعلقات کی تحدید اور صحت کا ذاتی تجربہ اور جس طرح ایک گمراہ فرزند باپ کے گھر میں لوٹ آتا ہے۔ اسی طرح کا میل ملاپ ہے۔ پروردگاری کے سلسلہ کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ پروردگاری کسی غائبانہ قوت کی جو دنیا کے واقعات میں کام کر رہی ہواطاعت اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا نہیں بلکہ یہ ایمان ہے کہ روزانہ زندگی اور انسان کی تاریخ میں خدا ذاتی طور پر فکر اور روزانہ زندگی اور انسان کی تاریخ میں خدا ذاتی طور پر فکر اور حفاظت کرتا ہے۔ اور اس سے دو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اول دکھ کا مألہ اور دوم بدی کا مألہ ۔ اور یہ دونوں مسائل خدا کی پروردگاری کے ایمان کا ثبوت طلب کرتے ہیں۔

دکھ کا مألہ :۔

دکھ کا انسانی زندگی میں بہت ہی ناخوشگوار سمجھا گیا ہے۔ دکھ ہمیشہ کسی زندگی پر آنے والے حادثہ ور خطرہ کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ بخار ہمارے اندر بیماری کی روک تھام اور زندگی کی حفاظت کے درمیان جنگ ہوتا ہے۔ درد کا احساس زندگی کی قابل قدر کامیابیوں کے لئے محرک ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً بیمار بچے کے لئے ماں کے ایثار کا ۔ خیر اندیشوں میں۔ جائل اور غرباء کی بستیوں میں رہنے والوں کی خدمت کا۔ شفقت اور درد مندی سے جان جوکھوں میں پڑنے سے انسانی زندگی کی نشوونما ہوتی ہے۔ بے درد زندگی ایک پتھر کی سی ہے۔ اور زندگی کے پاکیزہ اور بلند ترین مقاصد سے محروم ہوتی ہے۔ ایسی حالتوں میں دکھ بجا اور باعثِ لطف ہوتا ہے۔ مگر دقت تو س وقت پیش آتی ہے۔ جب دکھ انسانی زندگی کی نشوونما کو روک دیتا ہے۔ بلکہ کچل ڈالتا اور تباہ کردیتا ہے۔ جس طرح بادباراں کے طوفان بستیوں میں بربادی مصیبت اور سناٹا چھوڑ جاتے ہیں۔ موت بالخصوص بچوں اور جوانوں یعنی گلہائے حیات کی موت خدا کی پروردگاری کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے۔ ہم کس طر ح ان امور اور خدا کی حفاظت میں کوئی مطابقت اور ربط دیکھ سکتے ہیں۔

بدی کا مألہ:۔

اس سلسلہ میں بدی کے مئلہ کا حل بے حد مشکل ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بدی کا موجد شیطان ہے مگر اس سے ایک اور مشکل سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ شیطان کو کس نے بنایا ہے۔ یا خدا شیطان کو اجازت ہی کیوں دیتا ہے۔ اس طرح یہ معمہ ویسے کا ویسا ہی لا نیحل رہتا ہے۔

خدا کو بدی کا موجد قرار دینا غیر معقول ہے اس لیے کہ ایک طرف تو خدا کو بدی کا سر چشمہ ٹھہرایا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف انسان سے اس کی شخصیت اورذمہ داری چھن جاتی ہے۔ اور انسان خدا کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ثابت ہوتا ہے ۔ بدی خدا سے منسوب کرنا ہر گزقرین قیاس نہیں۔ نیز ہم انسان اپنے باطن میں قائلیت اور اقرار رکھتے ہیں ۔ کہ بدی کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ پھر ہم کس طرح جانتے بوجھتے ہوئے بھی بدی کو خدا سے منسوب کر سکتے ہیں۔

اس میں کلام نہیں کہ بدی کی کوئی فلسفیانہ وجہ ہم بیان نہیں کر سکتے۔ انسان نے بدی کرنے میں کئی کوششیں کی ہیں مگر کامیاب ایک بھی ثابت نہیں ہوئی۔ یہ ایک سر و بستہ راز ہے۔ جو اغلب ہے کہ تا ابد سر بمہر رہے گا۔ تا ہم اس قدر تو واضح ہے کہ بدی کا تعلق انسان کی فعل مختاری اور آزاد مرضی سے ہے مگر فعل مختاری اور آزاد مرضی کے بغیر انسان کی شخصیت ثابت ہی نہیں ہوتی۔ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ مراد ہے کہ انسان خدا کی مرضی کے برعکس فعل کرنے کا بھی امکان رکھتا ہے۔ اسی سے اس مألہ کے متعلق ایک فلسفیانہ معتبر پیدا ہوتا ہے۔ فلسفہ یا تو خدا کی رضائے مطلق کو تسلیم کرے گا۔ جس سے انسان کی آزادی کا سوال ہی جاتا رہتا ہے۔ یا انسان کی آزادی کی تصدیق کرے گا۔ جس سے خدا کا شاہانہ اختیار اور ارادہ باقی نہیں رہتا ۔ مگر باوجود اس فلسفیانہ استحالہ کے مذہب خدا کی رضائے مطلق بھی ایمان رکھتا ہے۔ اور انسا ن کی آزادی کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اور استقلال سے اس عقیدہ پر قائم ہے۔ مذہب نے تسلیم کیا ہے۔ کہ بدی ایک حقیقت ہے۔ مگر ایک را ز ہے۔ باوجود اس کے مذہب کا یہ ایمان ہے۔ کہ خدا کا ارادہ کام کر رہا ہے۔ اور اس کا منشا پورا ہو گا۔ یوسف کا واقعہ اس نکتہ کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اس کے بھائیوں نے اس کے ساتھ بدی کی اور اسے غلامی میں بیچ دیا۔ تو کیا ہم یہ کہیں کہ خدا نے یوسف کے بھائیوں کو اس بدی کے لئے اپنا اوزار بنایا۔ نعوذ باللہ ۔ ہر گز نہیں۔ تو کیا ہم یہ کہیں کہ جو کچھ کیا۔ بھائیوں نے کیا۔ خدا کا اس سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ مگر یہ بھی درست نہیں۔ مذہب کی طرف سے اس کا جواب یوسف کے ان الفاظ میں ہے جو اس نے اپنی سرفرازی کی حالت میں کہے تھے جب اس نے اپنے تئیں بھائیوں پر ظاہر کیا تھا ۔ اس نے اس ملاقات میں نہایت بے تکلفی کے ساتھ دل کھول کر بھائیوں کے رو برو رکھ دیا اور کہا کہ تم نے میرے خلاف بدی کا منصوبہ باندھا تھا۔ خدا کی طرف سے اس میں مصلحت اور نیکی پنہاں تھی۔

بے شک جو کچھ یوسف پر گزرا خدا کی طرف سے نہ تھا۔ مگر یوسف نے دیکھا کہ وہ تمام واقعات خدا کی حکمت اور قدرت کے احاطہ سے باہر نہ تھے۔ اس مثال سے واضح ہے کہ مذہب جو خدا کی پروردگاری پر ایمان رکھتا ہے۔ اس کے معنی کیا ہیں۔

اس ایمان کا ماخذ کیا ہے:۔

مذہب نے خدا کی پروردگاری کے متعلق یہ ایمان کسی فلسفیانہ استدلال سے بطور نتیجہ کے حاصل نہیں کیا۔ نہ ہی فطرت یا سلسلہ تاریخ کے مطالعہ سے یہ ایمان اخذ کیا ہے۔ بلکہ خدا کو ایک مشخص ہستی تسلیم کر نے سے اور انسانوں کے ساتھ اس کے برتاؤ کو دیکھنے سے مذہب کویہ ایمان حاصل ہوا ہے۔ مذہب اس امر کی تصدیق کرتا ہے۔ کہ کائنات میں خدا کا ایک مقصد ہے۔ اور خدا کی حکمت اور قدرت اس مقصد کی تکمیل کے لئے کافی وافی ہیں۔ یہ ہے وہ ماخذ جس سے مذہب نے خدا کی پروردگاری کا ایمان پایا ہے۔ یہ کوئی خشک مئلہ نہیں۔ یہ مذہب کے ذاتی تجربہ سے برآمد ہوا ہے یہ کوئی منطقیانہ استنباط نہیں۔ بلکہ ایک وجدانی وثوق اور تیقن ہے۔ خدا کی پروردگاری پر تکیہ کرنا فطرت سے یا تاریخ سے دلائل اور ثبوت پیش کرنے سے پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ اس ایمان میں اور فطرت اور تاریخ کے کئی غیر معمولی اور متحیر العقول واقعات میں نیائن اور تضاد پایا جاتا ہے۔ مگر ایمان تو اپنی مجموعی ہیت میں ا پنے اندر نیائن اور تضاد ضرور رکھتا ہے۔ اس لئے کہ ایمان دیدنی اور ظاہرہ پر نہیں بلکہ نادیدنی اور غیر مرئی حقائق پر ہوتا ہے۔ یہی حال خدا کی پروردگاری کا ہے اس لئے کہ باوجود دکھ اور بدی کے ناقابل فہم اسرار کے ہم خدا کی قدرت ۔ حکمت اور محبت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور اس ایمان کی بنیاد ایمان دار کے خدا کی ذات اور اس کی شفقت کے ذاتی تجربہ پر ہوتی ہے۔

عیسیٰ مسیح اور پروردگاری :۔

اس میں کلام نہیں کہ مسیح با اعتبار اپنی ذات اور تعلیمات کے مذہب میں بہت ہی اہم مقام رکھتا ہے۔ مگر اس کا افضل منصب یہ ہے کہ اس نے انسان کو خدا کا ذاتی اور شخصی تجربہ دیا ہے۔ یسوع مسیح نے دکھایا ہے۔ کہ خدا مشخص ہستی ہے۔ اور انسانوں کے ساتھ شخصی اور ذاتی ربط ضبط رکھتا ہے۔ اس اعتبار سے مسیح مذہب کی تاریخ میں بہت بلند مقام رکھتا ہے۔ مسیح کے ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کے اعتبار سے خدا کی تصور یا قیاس کا نام نہیں۔ بلکہ خدا ایک حقیقت ہے۔

وہ فی الوقعہ وجود اور ہستی رکھتا ہے۔ خدا محض ایک غیبی قوت نہیں بلکہ باپ ہے جو انسان کو پیار کرتا ہے۔ مسیح کے نزدیک مشخص خدا کے ساتھ شخصی تعلقات کا نام مذہب ہے۔ انسان کے مذہبی تجربہ کی تاریخ میں یہ امر (خدا کے ساتھ شخصی تعلقات ) بالکل نرالا اور بے مثال ہے۔ اور مذہب کی دنیا میں مسیح یسوع کی ذات اور شخصیت کے بلند مرتبہ کا یہی راز ہے۔

فکر پر مسیح کی تعلیم :۔

مسیح یسوع نے پروردگاری کو کیا سمجھا اور کس طرح سمجھایا ۔ مسیح یسوع کو وثوق حاصل تھا کہ خدا ۔ مردوں اور عورتوں اور بچوں کی پروا کائنات کی دیگر مخلوق سے زیادہ کرتا ہے۔ ہوا کے پرندوں کو دیکھ کر اس نے فرمایا کہ دیکھو وہ نہ تو بوتے ہیں۔ نہ کاٹتے ہیں۔ اور نہ گوداموں میں جمع کرتے ہیں۔ تمہارا آسمانی باپ ہی ان کی پرورش کرتا ہے۔ اور خوراک و پوشاک کے محتاج اور فکر مند انسانوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تمہاری قدر ان سے بڑھ کر نہیں۔ پھر پھولوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ جنگلی سوسنوں کو دیکھوں کس طرح بڑھتے ہیں۔ نہ وہ محنت کرتے ہیں۔ نہ کاٹتے ہیں۔ تا ہم سلیمان بھی باوجود اپنی ساری شان و شوکت کے ان میں سے ایک کی مانند بھی خوبصورت لباس پہنے ہوئے نہ تھا۔ اگر خدا جنگل کی گھاس کو جو آج لہلہاتی اور کل تنور میں جھونکی جائے گی۔ اس طرح پہناتا ہے۔ تو اے کم اعتقادو کیاوہ تم کو نہ پہنائے گا۔ تمہارے تو سر کے بال بھی گنے ہوئے ہیں۔ اور کیا پیسے کی دو دو چڑیاں نہیں بکتیں ۔ تا ہم ان میں سے ایک بھی تمہارے باپ کے حکم کے بغیر زمین پر نہیں گر سکتی۔

مسیح یسوع کا خدا کی فکر اور حفاظت پر ایمان اس قدر زبردست تھا کہ انسانوں کو زندگی کی روزانہ ضروریات کے لئے فکر مند دیکھ کر اسے حیرت ہوتی تھی۔ اس کا مقولہ تھا۔

؏

کار ساز با لفکر کار ما

فکر مادر کا آزارِ َ ما

اس کا عقیدہ اور دستور تھا کہ زندگی کی روزانہ ضروریات کے لئے خدا سے دعا و درخواست کرنا چاہئے۔ یہ انسان کو فخر اور استحقاق ہے۔ اس کی توضیح اور تشریح کے لئے اس نے تمثیلیں بیان کیں۔ مثلاً اس نے فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے اور وہ پتھر دے۔ یا مچھلی مانگے تو اسے سانپ دے۔ پس جب تم برے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا آسمان باپ اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا۔ پھر اس دعا میں جو شاگردوں کو سکھائی یہ جملہ بھی ہے کہ ہمارے روز کی روٹی آج ہمیں دے۔

یسوع مسیح نے انسانوں کو متنبہ کیا کہ زندگی کی روزانہ ضروریات کے لئے فکر اور خوف نہ کرنا چاہئے۔ اور تلقین فرمائی کہ آسمانی باپ کی نگہداشت اور پر داخت پر ایمان رکھنا چاہیے۔

؏

حرص قانع نیست بے دل اور اسباب معاش

آنچہ مادر کاردار یم اکثیرے درکار نیست

دکھ اور بلا کے متعلق مسیح کی تعلیم:۔

دکھ اور بدی کے مئلہ پر مسیح کی تعلیم قابلِ التفات ہے۔ ہمارے زمانہ کی طرح مسیح کے زمانہ میں بھی دکھ ۔ بیماری ۔ موت ۔ خون ریزی۔ اور ہولناک ۔ ملائیں تھیں۔ اس نے خود شریر النفس انسانوں کے ہاتھوں سے دکھ اٹھایا اور صلیب پر ذلت کی موت مرا۔ جو تشریح مسیح نے اپنے دکھوں کی فرمائی قابل قدر ہے۔ اس کے الفاظ سے چند نکتے حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً مسیح نے کبھی یہ گمان نہ کیا کہ اس کے دکھ گناہ کی سزا ہیں۔ بلکہ اس نے اس خیال کی کہ دکھ گناہ کا نتیجہ ہے تردید کی۔ نیز مسیح نے اپنے دکھ دینے والوں سے کبھی انتقام نہ لیا۔ بلکہ ان کے خلاف رنجش کا اظہار تک نہ کیا۔ حالانکہ انجام کار انہوں نے مسیح کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مسیح نے زندگی کی آخری گھڑیوں میں صلیب پر ان کے حق میں مغفرت کی دعا فرمائی ۔ جو نہایت ہی تعریف کے لائق ہے۔

یہ امر بے حد تعجب خیز ہے۔ کہ جب دوسرے اس کے واسطے رنج اور ماتم کر رہے تھے تو اس نے خود کو مظلوم نہ سمجھا۔ یہ حقیقت ہے۔ کہ اس نے صلیب کو شکست نہیں دی۔ بلکہ گناہ اور ذلت پر فتح پائی۔ جب ہماری تذلیل کی جاتی ہے۔ تو ہم اس کے عوض میں کسی کی تذلیل کرتے ہیں۔ اور جب ہم اپنے لعن طعن کرنے والوں کو لعن طعن کرتے ہیں تو ہماری بد سر شت ہم پر غالب آ جاتی ہے۔ مگر جب ہم پر بے و جز زیادتی ہوتی ہے۔ اور ہم صبر و شکر دکھاتے ہیں۔ یا جب ہم لعن طعن کے عوض برکت دیتے اور دعائے خیر کرتے ہیں۔ تو ہم اپنے سفلہ جذبات پر غلبہ پاتے اور فتح مند ہوتے ہیں۔ یہ فتح در حقیقت ہم سے ہم اور میں خدا کی فتح ہوتی ہے۔ مسیح کے معاملہ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اس پر لعن طعن کی گئی اور اس نے اپنا منہ نہ کھولا۔ اس کو برا بھلا کہا گیا۔ مگر اس نے دعائیں دیں۔ اس پر انتہائی تشدد روا رکھا گیا۔ جو اس نے بے مثال صبر و سکون سے برداشت کیا۔ یہ اس میں خدا فتح کا اظہار تھا۔ مگر مسیح کے دکھوں میں اس سے زیادہ کچھ اور بھی ہے۔ میرے خیال میں یہ نہیں کہ اس نے فقط دکھوں کو کمال صبر و تحمل سے برداشت کیا بلکہ اس نے ایمان رکھا کہ دکھوں کے خدا کی مرضی پوری ہو رہی ہے۔ اور اس کا مقصد تکمیل پا رہا ہے۔ صلیب تماشائیوں کے واسطے تو ایک سیاہ دھبہ تھی مگر مسیح کے لئے مہر نیمروز تھی۔ جیتنے مسیح کے مخلص ایمان دار بندے ہیں سب کے لئے صلیب وہی مرتبہ رکھتی ہے۔ انسانوں کے خطرناک دشمن خارجی مخالف اور حملہ آور نہیں بلکہ اندرونی غنیم ہیں۔ جب انسان میں ایذا اور بے و قری کی تاب پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ان پر غالب آتا ہے۔ اس وقت وہ فتح مند ہو تا ہے۔ ایسی تاب و تواں فقط اس ایمان سے نصیب ہوتی ہے۔ جو مسیح کی صلیب میں آشکارا کیاگیا ہے۔ مسیح کی صلیب دکھ کو خدا کی پاک محبت کا ذریعہ بناتی ہے۔ بے شک صلیب اور محبت میں تضاد نظر آتا ہے۔ صلیب بظاہر سیاہ اور تلخ ہے۔ مگر اس میں خدا کی قدرت ۔حکمت اور الفت کا راز آشکارا ہوا ہے۔ دکھ ذلت اور موت پر صلیب حقیقی فتح ہے۔ اور مسیح نے اپنے تجربہ سے اس کے راز کو عیاں کیا ہے۔ یہاں تک کہ صلیب کے سامنے کھڑا ہو کر اس نے اپنے پریشان حال شاگردوں کو کہا کہ خاطر جمع رکھو میں دنیا پر غالب آیا ہوں پھر نزع کی گھڑی میں اس نے کہا کہ اے باپ میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں۔

آخری باتیں

خدا کی پروردگاری پر ایمان ماضی میں اہل ایمان کے لئے ایک مضبوط چٹان ثابت ہوا ہے۔ باوجود یہ کہ بظاہر دنیا میں عدل اور راستی کی شکست تھی۔ اور انسا ن کی زندگی میں کرب و بلا۔ حادثات اور حسرت ازا واقعات تھے۔ تا ہم ایمان داروں نے خدا کی حفاظت ۔ حکمت ۔ قدرت اور محبت پر ایمان رکھا۔ اوریوں اپنے مستقبل کو امید اور یقین کی نظروں سے دیکھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دورِ حاضرہ کے انسانوں نے وہ ایمان کھو دیا ہے۔ اپنے چاروں طرف ہنگامہ اور تباہی دیکھ کر اور قدرت کی اندھا دھند کام کرنے والی طاقتوں سے مرعوب اور خائف ہو کر آج انسان دہشت اور مایوسی سے دب گیا ہے۔ اسے شخصی زندگی میں یا کل نوع انسان کی حیات میں کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔ نہ کوئی مقدورت دکھائی دیتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو منحوس طاقتوں کے پنجہ میں دیکھ رہا ہے۔ اور نتیجہ غیر تسلی بخش اور ہولناک نظر آ رہا ہے۔ وہ دائیں بائیں نگاہیں دوڑاتا ہے۔ کہیں نور دکھائی نہیں دیتا ۔ مگر اوپر کی طرف آنکھیں نہیں اٹھاتا ۔ ہمارے زمانہ کے لوگوں کے لئے اگر کوئی مستقل نظام ہے تو وہ صرف نظام فطرت ہے۔ وہ کبھی فوق الفطرت نظام کا خیال نہیں کرتے۔ جو خدا کا نظام ہے۔ آج انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ واقعات کے ریلے میں یعنی تغیر پذیر حالات میں خدا کا ثبات دیکھے۔ اور ظاہر میں آنکھ کو جو شکست نظر آ رہی ہے۔ اس میں خدا کی فتح دیکھے ۔ عصر حاضرہ کے انسان کی فتوحات نے اس کی آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر کے اس کی نگاہوں کو خدابینی کے لئے بے کار کر دیا ہے۔ توپ اور تفنگ کے شور اور دھماکہ نے خدا کی دھیمی آواز کے لئے اس کو بہرہ کر رکھا ہے۔ اس کے ہنر اور فراست نے اس کو غلط فہمی اور خود فریبی کا ایسا شکار بنا دیا ہے ۔ کہ وہ آسمانی حکمت کو خاطر عاطر میں بھی نہیں لاتا۔

ہمیں یقین کرنا چاہئے ۔ کہ کل عالم ایک روحانی نظام ہے۔ اور روح کو مادے پر فوقیت حاصل ہے۔ کل آفاق کا مرکز اور جان ایک مشخص ہستی ہے۔ اور شخصیت مادی قوانین سے اعلیٰ و بالا ہے۔ ہم کسی اندھا دھند کام کرنے والی تقدیر کے رحم و کرم پر نہیں۔ بلکہ خدائے رحیم و رحمن کی محبت سے گھرے ہوئے ہیں۔ مسیح کا جو کہ دکھ اٹھانے والوں کا سر تاج اور فاتح اعظم ہے۔ یہی ایمان تھا۔ دنیا کے کل پریشان حال اور سرا سیمہ انسانوں کے لئے اس کے وہ الفاظ حسبِ حال ہیں۔ جو اس نے آخری موقع پر اپنے حواس باختہ شاگردوں کو کہے تھے۔ کہ ’’تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو۔ ‘‘

آمین

Posted in: مسیحی تعلیمات, خُدا, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, نجات | Tags: | Comments (0) | View Count: (15293)
Comment function is not open
English Blog