مرزا حقیقت کےآئینے میں
مردہ لوگوں کا کوئی حق نہیں کہ وہ زندوں پر حکومت کریں
(Benjamin Franklin )
صدیوں کے سفر پر محیط انسانی مشاہدہ و تجربہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ترقی انسان کی فطرت میں پوشیدہ ہے ۔ روایات ، قدریں اٹل اور آفاقی نہیں رہتیں ، یہ زمانہ کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں ۔ ماضی میں بھی وہی قومیں ترقی کی جانب رواں دواں رہیں جو اپنا زمانہ خود تعمیر کرنا چاہتی تھیں ، انکا ماحول انکا اپنا تشکیل کردہ تھا۔ مفکرین کی یہ رائے بھی ہے کہ ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے کہ جب تک ہم زندہ رہیں کسی آدمی کو اجازت نہ دیں کہ وہ تاریخ کی غیر فانی سزا سے بچ نکلے جو غلطی پر دی جانی چاہئے۔
مرزا غلام احمد قادیانی بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں جنہیں کسی طرح سے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن انسان کا کیا کیجیئے کہ ہماری عمر ہی بہت کم ہے ۔ تاریخ جو سزا ہمیں دینا چاہتی ہے ہم اسے سہنے کے لئے زندہ بھی نہیں رہتے ۔ یہی جناب مرزا غلام احمد قادیانی کے نصیب میں بھی تھا۔ افسوس صد افسوس کہ جناب ِ موصوف آج ہمارے درمیان نہیں ، صرف ایک قبر ہی ہے اور قبر کے اندر کا حال تو ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے ، ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان کا جسدِ خاکی اب کس حال میں ہوگا۔ ہم چاہتے ہوئے بھی ان کی مغفرت کے لئے دعا نہیں کرسکتے ، کہ جس ذات سے ہم ان کے لئے دعا کرنا چاہتے ہیں ، مرزا صاحب تمام عمر ان کی شان میں گستاخی کرتے رہے، اب مرزا صاحب جانے اور جناب مسیح ، یہ ان دونوں کا معامعلہ ٹھہرا۔ مرزاصاحب وہ نرالے نبی ہیں جنہوں تاریخی طور پر یہ ثابت کرنیکی کوشش کی ہے کہ خداوند یسوع مسیح کسی طرح بھی الوہیت کے حامل شخصیت نہیں تھے۔ یہ ایک حیرت انگیز مقام ہے ، کہ ایک نبی کہ جس کا انحصار خدا تعالیٰ کے الہام پر ہونا چاہئے ، تمام عمر اپنی ناقص عقل پر ہی بھروسہ کرتے رہے اور کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالیں ، لیکن کوئی معجزہ نہ کرسکے ۔ ایک جانے مانے مسیحی عالم نے کیا خوب کہا ہے کہ " عقل خدا شناسی کا ایک وسیلہ ہے مگر وہ کام اور کافی وسیلہ ہرگز نہیں، پس ہم اسے نہ رد کرتے ہیں اور نہ صرف اس کی ہدایت ہی کو کافی جانتےہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سب اعضاء اور حواس اگرچہ ہماری اس زندگی کی رفعء حاجات کے لئے پید اکئے گئے ہیں مگر بیرونی طاقت کے بغیر وہ ناکافی ہیں۔ مثلاً جب تک اعضاء میں بیرونی طاقت نہ آئے وہ سب بیکار ہیں۔ آنکھ اگرچہ دیکھنے کا آلٰہ ہے لیکن بیرونی روشنی کی سخت محتاج ہے ۔ مزید فرماتے ہیں کہ " الہام ایک روشنی ہے ، اسلئے جہاں وہ ہوگا وہاں اس کے وسیلے سے سب کچھ صاف نظر آئیگا۔ جس طرح جہاں آفتا ب ہے وہاں روشنی ہے اور جہاں وہ نہیں ہے وہاں اندھیراہے۔ " (خداشناسی، بقلم پادری ڈاکٹر عمادالدین لاہزمرحوم) مفکرین کی رائے یہ ہے کہ آپکے الہامات میں زیادہ تر وفات ِ مسیح پر بحث ہے۔ اپنی نبوت پر دلائل ہیں ، یا پھر عبداللہ آتھم اور محمدی بیگم سے نکاح کی پیشنگوئیاں اور نشانات کا تذکر ہ ہے ۔ دور حاضرہ کے مفکرین کے مطابق آپ کے پیغام میں کہیں بھی کوئی فلسفہ نظر نہیں آتا جو جدید یت سے جڑے مسائل سے نبرو آزما ہونے کے لئے کام میں لایا جاسکے، جمہوریت ، اشتراکیت ، ملوکیت ، بین الآقوامی روابط ، وغیرہ ایسے موضاعات ہیں جو انیسویں صدی کا موضوع ِ خاص تھے آپکے ہاں ناپید نظر آتے ہیں۔ ہاں بس فرق ہے تو صرف اتنا کہ کوئی آپکے الہام پر یقین کرے نہ کرے آپ کو بہت زیادہ یقین تھا، " میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ۔۔۔۔ جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں ۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوا ہے ۔ خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔ " ( حقیقتۃ الوحی ، صحفہ 211) " مجھے اپنی وحی پر ایسا ہی ایمان ہے جیسا کہ تورات اور انجیل اور قرآن کریم پر۔ " ( اربعین 4 صحفہ 25) اب آپ کی مدد کون کرتا ہے کیونکہ ایک الہام کے مطابق تو آپ خود سبب ِ الہام ہیں ملاحظہ کیجیے " میں نے نیند میں اپنے آپ کو ہو بہو اللہ دیکھا اور میں نے یقین کرلیا کہ میں وہی اللہ ہوں ۔ پھر میں نے آسمان اور زمین بنائے اور میں نے کہا کہ ہم نے آسمان کو ستاروں کے ساتھ سجایا۔" ( آئینہ کمالات اسلام صحفہ 564-565)
اسی طرح جب ہم موجودہ اسکالرز کی روشنی میں مرزا صاحب کی جناب سیدنا عیسیٰ مسیح کے حوالے سے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتا کہ مرزا نے گزشتہء صحائف ِ انبیاء کو حسب ضرور ت صاف کرنے کی کوشش کرکے ، مسیحی تاریخ کو محدود کرنیکی کوشش کی ۔ جارج ویل اپنی ریسرچ میں فرماتے ہیں کہ تاریخ کو مسخ کرنیکا ایک طریقہ یہ ہے کہ اہم حقائق کو یا واقعات کو یا تو بالکل نظر انداز کردیا جائے یا انہیں بہت ہی اختصار کے ساتھ لکھا جائے۔ نکیتا خروشیف نے مورخوں کے بارے میں کہا تھا کہ " مورخ خطرناک لوگ ہوتے ہیں اور یہ ہر چیز کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کی نگرانی بڑی ضروری ہے۔ " جناب مرزا صاحب کی کتابوں کو پڑھنے کے بعد یہ تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے الہامات کیساتھ کیساتھ ان کا مطالعہ کچھ زیادہ نہیں تھا۔آپکی ذہانت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف نے جب قانونی مختاکاری کا امتحان دیا تو اس میں فیل ہوگئے ۔ یہ بھی ثابت نہیں ہوسکا کہ کسی مشہور درسگاہ سے تعلیم حاصل کی ہو، انگریزی سے بھی نابلد تھے ، لیکن پھر ازراہ ِ ہمدری ہم اس حوالے سے ایک فلاسفر کو قول یہاں اس موقع پر نقل کئے دیتے ہیں مثلاً ایمانوئل کانٹ کو ہی لے لیجئے ، ان کے مطابق عقل و فہم اور ادراک کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ انسان کی زندگی میں تکمیل کو نہیں پہنچتی۔اب اسی بات کو لے لیجیئے کہ بقول مرزا ، جناب سیدنا المسیح ابن مریم کی قبر کشمیر میں بتلاتے ہیں (الہدیٰ) لیکن اپنی دوسری تصنیف ازالہ اوہام میں جناب یہ بات بھول جاتے ہیں کہ پہلے کیا کہہ گئے ہیں اور فرماتے ہیں کہ " سچ ہے کہ مسیح ؑ اپنے وطن گلیل میں جاکر فوت ہوگیا لیکن یہ ہرگز سچ نہیں کہ وہی جسم جو دفن ہوچکا تھا پھر زندہ ہوگیا۔" اس بات سے یہ بات تو صاف ثابت ہوجاتی ہے کہ جنابِ مرزا کے مطالعہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر بہت کمزور تھایا پھر معدے کی بیماری میں مبتلا رہنے کی وجہ سے حافظہ پر کافی برا اثر پڑاکیونکہ محترم ایک جگہہ فرماتے ہیں کہ " ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں ۔ کیونکہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق " ( ست بچن صحفہ 31 ) لیکن کیا کیجیئے کہ جناب مرزا کے دل سے دو نہیں تین باتیں نکلتیں ہیں ، کہ آپ اپنی مشہور کتاب ضمیمہ انجام آتھم اور شہادت القرآن کے صحفہ 53 پر اس حدیث کو دلیل بناتے ہیں جسمیں درج ہے کہ " اتریں گے عیسیٰ بن مریم زمین پر پس نکاح کرینگے اور ان کے ہاں اولاد پیدا ہوگی اور زمین میں پنتالیس سال رہینگے پھر فوت ہوں گے۔ "
لیکن پھر بھی آپ کبھی کبھی سچ بول ہی دیا کرتے تھے مثلاًجناب فرماتے ہیں " اور مجھے کہاں یہ حق پہنچتا ہے کہ نبوت کا دعویٰ کروں اور اسلام سے خارج ہوجاؤں اور قومِ کافرین سے جاکر مل جاؤں ۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ مسلمان ہو کر نبوت کا ادعا کروں۔ " ( حمامتہ البشریٰ صحفہ 79؛ خزائن ج 7، صحفہ 297)
اب اختتام کی جانب آتے ہوئے کہ جناب مرزا غلام احمد قادیانی نے خود ہی جہان ِ فانی سے کوچ کرنے سے پہلے اپنے لئے سزا تجویز فرما لی تھی ، اب ہم مزید کیا فرمائیں، ہم نے تو تاریخ میں سے کچھ باتیں آپ ذی عقل ، باشعور عوام کے سامنے رکھدیں کے سوچیں اور غور کریں کہ آپ ایسے شخص کی باتوں سے کیونکر مرعوب ہوسکتے ہیں ، جن سے وہ خود بھی نالاں تھے، ملاحظہ کیجیئے " اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے ۔ " ( حقیقتۃ الوحی صحفہ 184؛ خزائن ج 22 صحفہ 191) " کوئی دانشمند اور قائم الحواس آدمی ایسے دو متضاد اعتقاد ہر گز نہیں رکھ سکتا ۔ " ( ازالہ اوہام صحفہ 239؛ خزائن ج 3 صحفہ 220) " جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے ۔ " ( ضمیمہ براہین احمدیہ ج 5 صحفہ :111؛ خزائن ج 21 صحفہ : 275)
ارسطو کا ایک قول بہت مشہور ہے کہ ایک قابلِ تقلید نمونہ کو کسی بھی طور پر افراط و تفریط یا انتشار کو شکا ر نہیں ہونا چاہئے ، کنفیوشس کو قول ہے کہ وہ شخص جو قابل تقلید نمونہ ہونے کا دعویٰ کرے اس کی تعلیمات ایسی ہونا چاہیں کہ خاندانی زندگی میں پاکیزگی کا عنصر ترقی پائے۔ مگر افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مرزا صاحب اپنی زندگی میں کبھی بھی قابل تقلید نمونہ نہیں بن سکے۔ بلکہ جو زبان جناب نے سیدنا عیسی ٰ مسیح کے لئے استعمال کی وہ اپنی مثال آپ ہے ، ملاحظہ کیجیے، " یہ بات قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ حضرت مسیح بن مریم باذن و حکم الٰہی ایسے نبی کی طرح اس عمل الترب (مسمریزم ۔ شعبدہ بازی ) میں کمال رکھتے تھے۔۔۔۔۔ اگر یہ عاجز (مرزا صاحب اپنے لئے فرماتے ہیں ) اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا ۔۔۔۔ تو حضرت مسیح سے کم نہ رہتا۔ " ( ازالہ طبع دوم صحفہ 127) ایک جگہ جناب مرزا بدتمیزی کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے فرماتے ہیں کہ " یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے اس کا سبب تو یہ تھا کہ عیسی ٰ علیہ اسلام شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے ۔ " (کشتی نوح صحفہ 65) مرزا صاحب کی ذہنی خلفشار کے بارے میں تو پہلے ہی ذکر کر چکے تھے اور اب آپ کی زبان دانی کے نمونے اور وہ عزت جو آپ گزشتہ نبیوں اور ولیوں کے لئے رکھتے تھے ، قارئین کے سامنے پیش کرچکنے کیبعد ہمیں یقین ہے کہ کوئی ذی عقل شخص خو اہ وہ مرد ہو یا عورت آپ جیسے کاسہء لیس انسان سے ہمکلام تو کجا ان گلیوں سے گزرنا پسند نہیں کریگا جہاں آپ کا مسکن تھا۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں سے یہ بآ سانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جناب ماضی سے حد درجہ لگاؤ رکھتے تھے، لیکن وہ ایک بات بھول گئے کہ بقول نٹشے " انسان کو ماضی سے اس قدر معلومعات لینی چاہئیں کہ جس قدر وہ ہضم کرسکے۔کیونکہ حد سے زیادہ ماضی کی معلومعات اور حد سے زیادہ ماضی کی یادیں ذہن کو انتشار کا شکار کردیتی ہیں۔ " آپ ماضی کی سہانی یادوں میں ایسا کھوئے کہ مرتے دم تک انتشار کا شکار رہے جو کہ آپکی تحریرات کے حوالہ جات سے ثابت کیا جاچکا ہے۔ ہماری گزارش دین ِ قادیان کے ماننے والوں سے یہ ہے کہ اگر وہ اپنے نبی کی طرح تاریخی مماثلت کے ذریعے سے کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کرنے میں لگے ہوئے ہیں تو یاد رکھئیے کہ آپ گمراہی کے اندھیرے راستوں پر بھٹکتے ہی رہینگے۔ انسان کی عقل و فہم اور ان کی صلاحیتیں محدود نہیں ، اور تحقیق صرف کچھ صاحب اختیار لوگوں کے بس کی بات نہیں رہی ، آج کے زمانے میں علم دوپہر کے سورج کی مانند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا ہے ، Computer اور Internet کی ایجاد نے دنیا کو ایک finger tip پر لا کر کھڑا کردیا ہے ، اب حکمرانوں کے راز صرف حکمران نہیں جانتے ، آج کے دور میں سچ کو چھپانا تقریباً ناممکن ہے ۔ آج کتابوں کی چھپائی پر اتنا سرمایہ صرف نہیں ہوتاجتناکہ آج سے تقریبا 100 سوسال پہلے ہوا کرتا تھا، آج کتابیں خریدنا بھی نسبتاً آسان ہے۔آج کے نوجوان کے اذہان اتنے کشادہ ہیں کہ وہ بلا کسی تعصب کے گزشتہ ء صحائف انبیاء کا مطالعہ خود کرسکتے ہیں ، چاہے وہ تورات ہو ، زبور ہو ، مجموعہء صحائف انبیاء ہو یا پھر انجیل ، یہ اب آسان اردو زبان میں دستیاب ہے ۔ سچائی آج اہل پاکستان کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے اور انہیں گناہوں کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے بیتاب ہے ۔ نفرت کے بیج جو کچھ جہلاء نے جھوٹ کے سہارے بوئے تھے آج انہیں جڑ سے اکھاڑنے کا وقت آچکا ہے ، اگر اہل پاکستان چاہتے ہیں کہ پاکستان امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے تو کتب مقدسہ بہتر کوئی اور ذریعہ مل نہیں سکتا ، کیونکہ اس کا لکھنے والا اپنے قول کے مطابق صادق ہے، ہمیشہ سے ہمیشہ تک رہنیوالا ہے ۔ دوسرے مذاہب کے بانی تو آج تک اپنی قبروں میں پڑے گل سڑ چکے ہیں، لیکن ایک ہے جو مرگیا تھا، پھر زندہ ہوگیا اور اب ہمیشہ سے ہمیشہ تک حکومت کرنے کے لئے زندہ ہے۔ وہ آپکے دلوں میں سکونت کرنا چاہتا ہے ، اس کی بادشاہت کا کوئی آخر نہیں ، لیکن وہ ہمیں جو فانی انسان اس دنیا میں فنا کے اس لبادے میں بھی الوہیت کے کچھ لمس دینا چاہتا ہے ، پاکیزگی کے برتن بنانا چاہتا ہے جس میں وہ پاک ذات اپنی الٰہی محبت کو انڈیل سکے۔