en-USur-PK
  |  
Category
03

مسلمانوں کے دوست

posted on
مسلمانوں کے دوست
             مسلمانوں کے دوست

Friends of Muslim’s

Barakat.A.Khan

برکت ۔ اے ۔ خاں

                        قرآن مجید میں حکم ہواہے کہ دوستی کے بارے میں مسلمانوں کے لئے تو اُن کو زیادہ نزدیک پاۓ گا جوکہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ (مسیحی) ہیں لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے(سورہ مائدہ آیت ۸۲)۔ اس آیت کی رُو سے مسلمانوں کے نزدیک دوست مسیحی ہیں۔ روئے زمین کے تمام مسیحی لوگ مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست ہیں؟ مغربی اور مشرقی ممالک کے مسیحی۔ پاکستانی مسیحی مشنری اورغیر ملکی مسیحی مشنری سب کے سب مسلمانوں کے دوست ہیں۔ تمام اقوام عالم کی نسبت صرف مسیحی لوگ ہی مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست ہیں غیر مسیحی لوگ جب مسیحی ہوجاتے ہیں تووہ بھی ازروئے  قرآن مجید مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست بن جاتے ہیں۔ بلکہ جو مسلمان سیدنا مسیح کواپنا نجات دہندہ مان لیتے ہیں ۔ وہ بھی مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست بنے رہتے ہیں ۔

          لیکن ایسے لوگ جوان دنوں مسیحیت کوایک فتنہ قرار دیتے ہیں اورانجیل کی تبلیغ میں رکاوٹ پیدا کرنے کی تجاویز پیش کرتے ہیں۔ وہ قرآن مجید کی تعلیم سے بالکل بے خبر ہیں۔ ایسے لوگوں کومسلمانوں اور مسیحیوں  کی دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ایسے لوگ اپنی کسی ذاتی غرض کے شکاری ہیں۔ اور مسلمانوں اورمسیحیوں میں محبت اور دوستی کی بجائے کدورت۔ دشمنی اور انتشار پیدا کرکے امنِ عالم کونقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے ۔ کہ ازروئے قرآن مجید روئے زمین کے تمام مسیحی لوگ مسلمانوں کے زیادہ نزدیکی دوست ہیں۔ انجیل مقدس میں مسیحیوں کو یہ حکم ہے کہ نہ صرف اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو بلکہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دعا کرو(انجیل شریف بہ مطابق حضرت متی رکوع ۵آیت ۴۴تا ۴۶) "اور جیسا تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی کرو(انجیل شریف بہ مطابق  حضرت لوقا رکوع ۶ آیت ۳۱)۔ لکھاہے کہ اے مسلمانو! تم اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا مت کرو وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ ترجمہ اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو (سورہ عنکبوت آیت ۴۶)۔ لیکن جوگ مسیحیوں کے ساتھ انجیل مقدس کی تبلیغ کے بارے میں جگھڑتے ہیں۔ کیا ہم ان کی بابت کہہ سکتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کا حکم ماننے والے ہیں ؟پھر انجیل کی تبلیغ  کو فتنہ قرار دینا تو قرآن مجید کے حکم ومنشا کے بالکل ہی منافی ہے۔ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنجِيلِ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فِيهِ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ترجمہ اور اہل انجیل کو چاہیئے کہ جو احکام خدا نے اس میں نازل فرمائے ہیں اس کے مطابق حکم دیا کریں (سورہ مائدہ آیت ۴۷)۔ پس جبکہ قرآن مجید میں اس موجودہ انجیل کی تبلیغ کا حکم موجود ہے توکیا اس انجیل کی تبلیغ کوفتنہ قرار دینے والے اوراس کی تبلیغ میں روک پیدا کرنے والے مسلمانوں اور مسیحیوں کے خیر خواہ ہوسکتے ہیں؟ یہ انجیل شریف زندہ مسیح کا زندہ کلام ہے۔ جس کی تبلیغ کا حکم قرآن مجید اورانجیل میں آج بھی زندہ اورقابلِ عمل ہے۔ اسکے علاوہ اور کوئی دوسر ی انجیل نہیں ہے۔ جس کی دنیا میں تبلیغ ہورہی ہے۔

          مسیحیوں کے ساتھ زیادہ نزدیکی دوستی کا حکم آج بھی قرآن مجید میں زندہ اور قابلِ عمل ہے۔ مسیحیوں کے واسطے اس انجیل کی تبلیغ کا حکم آج بھی قرآن مجید میں زندہ اور قابلِ عمل ہے۔

·        کیا کوئی جرات سے کہہ سکتاہے کہ مسیحیوں کے ساتھ زیادہ نزدیکی دوستی کا حکم ہے قرآن مجید سے خارج اورمتروک ہوگیاہے؟ نہیں۔ قرآن مجید میں یہ حکم آج بھی زندہ اور قابلِ عمل ہے۔

·        کیا کوئی جرات سے کہہ سکتاہے کہ انجیل کی تبلیغ کا حکم قرآن مجید سے خارج اورمتروک ہوگیا ہے؟ قرآن مجید میں یہ حکم آج بھی زندہ اور قابلِ عمل ہے۔

·        کیا سورہ مائدہ کی ۸۲ ویں آیت دورہِ حاضرہ میں بیکار کہنا عقلمندی ہے۔ خواہ مسیحی لوگ مسلمانوں کی طرح قرآن مجید کو وہ درجہ دیں یا نہ دیں۔ لیکن مسیحیوں کے ساتھ زیادہ نزدیکی  دوستی کا حکم قرآن مجید میں آج بھی زندہ اورقابلِ عمل ہے۔ انجیل کی تبلیغ کے معاملہ میں تو مسیحی لوگ گویا قرآن مجید کے حکم کی بھی پیروی کررہے ہیں(سورہ مائدہ آیت ۴۷)۔

·        قرآن مجید اس انجیل مقدس میں لکھی ہوئی باتوں کی سچائی کی آج بھی تصدیق کرتاہے۔(سورہ مائدہ آیت ۴۸)۔

          یہ انجیل مقدس وہ ہے جس میں نوراورہدایت ہے(مائدہ ۴۶) انجیل میں جس نور کااشتہار ہے۔ وہ نور مسیح ہے ۔ جوزندگی بخش نور ہے۔(انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت یوحنا رکوع ۱آیت ۴)" حقیقی  نورجوہر ایک آدمی کوروشن کرتاہے "(راوی حضرت یوحنا رکوع ۱آیت ۹) بمنزلہ آفتاب جس کی کرنوں میں شفا اور زندگی بخش تاثیر ہے۔ عالم بالا کا آفتاب جوہماری زندگی کونجات کا نُور اورہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے(انجیل شریف راوی حضرت لوقا رکوع ۱آیت ۷۸)۔ جوہر ایمان لانے والے کی زندگی کوروشن اورمنور کرتا ہے۔ سیدنا مسیح نے فرمایاہے:۔

"دنیا کا نور میں ہوں۔ جومیری پیروی کرے گا۔ وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا"۔(راوی حضرت یوحنا رکوع ۸آیت ۱۱)۔

          سیدنا مسیح حقیقی نور ہے ۔ گناہ سے نجات دینے والا اورخدا کے ساتھ ہماری صلح اور میل کرانے والا زندہ نور مسیح ہے۔ سیدنا مسیح نے فرمایاہے " میں نور ہوکر دنیا میں آیا ہوں تاکہ جو کوئی مجھ پر ایمان لائے  اندھیرے میں نہ رہے "(راوی حضرت یوحنا رکوع ۱۲آیت ۴۶)۔ کیا نجات دینے والے نور کی خوشخبری کوروکنا عقلمندی ہے؟ اہلِ اسلام کا دعویٰ ہے کہ ہم عیسیٰ مسیح کی بڑی عزت کرتے ہیں۔ توپھر اس کی انجیل کی تبلیغ میں روک پیدا کرنا جس میں نور اور ہدایت ہے ۔ کونسی دانائی ہے؟اورمسیحیت کوفتنہ قرار دینے میں قرآن مجید کے کونسے حکم کی بھلائی ہے؟ پیارے دوستو! آج بھی مسیحی لوگ آپ کے دوست بلکہ زیادہ نزدیکی دوست ہیں اور دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے وہ آپ کو نجات کی خوشخبری کا اشتہار دیتے ہیں۔ لکھا ہے

          ایمان لائے گا۔ اُس کے نام سے گناہوں کی معافی پائیگا(اعمال الرسل رکوع ۱۰آیت ۴۳)۔

          سیدنا مسیح حقیقی نور ہے۔ وہ زندگی بخش نور ہے۔وہ نجات دینے والا نور ہے ۔وہ گنہگاروں کی نجات کا کام ہرروز اورہر وقت کرتا رہتاہے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ اور حقیقی نور ہے۔جولوگ مانتے ہیں کہ مسیح زندہ ہے۔ ان میں سے بعض ایسے لوگ ہیں ۔ جن کو ابھی تک یہ انفرادی تجربہ حاصل نہیں ہوا۔ کہ زندہ مسیح آقا ومولا ہمارا نجات دینے والا ہے۔اِن کوچاہیۓ کہ وہ زندہ مسیح پر ایمان لاکراپنے ایمان کوزندہ کریں اور حقیقی نور کے وسیلہ سے نجات اورہمیشہ کی زندگی کا نور پائیں۔ سیدنا مسیح فرماتے ہیں:

          "دنیا کا نور میں ہوں جومیری پیروی کرے گا۔ وہ اُندھیرے میں نہ چلے گا ۔ بلکہ زندگی کا نور پائے گا"۔ کیونکہ میں دنیا کومجرم ٹھہرانے نہیں۔ بلکہ دنیا کو نجات دینے آیا ہوں"۔(انجیل شریف بہ مطابق راوی حضرت یوحنا رکوع ۱۲آیت ۴۷)۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, اسلام | Tags: | Comments (0) | View Count: (23841)
Comment function is not open