en-USur-PK
  |  
Category
17

طریق ِ نجات ازروئے عقل وبائبل

posted on
طریق ِ نجات ازروئے عقل وبائبل

Salvation According to the Logic & The Bible

Rev. Mawlawi Dr. Imad ud-din Lahiz 

(1830−1900)

طریق ِ نجات ازروئے عقل وبائبل

علامہ مولوی پادری ڈاکٹر عماد الدین لاہز        

                   

           اگرچہ ازروئے عقل ریاضت  ونفس کشی او اعمال حسنہ نجات کے وسائل سمجھے گئے ہیں  اور قسم قسم کے خیالات  اس مقصد کے حصول کے لئے ایجاد ہوئے ہیں  مگر وہ سب ایک سرسری نظر سے ناقابل  اعتبارثابت ہوتے ہیں۔عقل صرف اتنا کہہ سکتی ہے کہ خدا اپنے فضل سےاگر کوئی صورت ہماری نجات کے لئے  نکالے تو ہم بچ سکتے ہیں ورنہ انسانی تدبیر  انسان کو نجات نہیں دلاسکتی ہے ۔

          اس بارہ میں عقلی تدابیر  کا یہی لب لباب ہے جو بیان ہوا مگر اس سے اگر چہ روح کی نظر ایک نادیدنی غیر معلوم سچائی  پر تو قائم ہوجاتی ہے لیکن تسکین  نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ باطنی آنکھ کے سامنے سے اندھیرا نہیں ہٹ سکتا جب تک کہ اس کے فضل خاص کا کچھ علم حاصل نہ کیا جائے ۔

بائبل نجات کی راہ کیا دکھاتی ہے

          بائبل کے دو حصے ہیں۔ عہد عتیق وعہد جدید عیسائی ہر دو حصوں پر ایمان رکھتے ہیں مگر یہودی صرف عہد عتیق  کو مانتے ہیں۔

          عہد عتیق  میں نجات  کی راہ یوں مذکور ہے کہ " مسیح جو ایک عجیب قدرت کا شخص ہے  اور زمانہ آئندہ  میں ظاہر ہونے والا ہے  وہ اپنی قربانی کے وسیلہ سے  سب قوموں  کے لئے نجات  کی راہ تیار کرے گا اور نیز یہ بھی بتلادیا ہے کہ یہ شخص  فلا ں قوم سے فلاں زمانہ میں فلا ں بستی کے اندر ان صفتوں  کے ساتھ  ظاہر ہوگا۔

عہد عتیق  کا یہی لب لباب ہے اور اسی آئندہ شخص پر سب اگلے  لوگوں کی نظر لگی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔

          شروع میں آدم اور حوا کی نظر بھی اسی شخص پر لگائی گئی تھی کہ وہ " تیرے  سر کو کچلیگی  اور تو اس کی ایڑی کو کاٹیگا ۔" (توریت شریف کتاب پیدائش رکوع 13 آیت 15)۔  یعنی عورت  کی نسل سے  ایک شخص ظاہر ہوگا جو مرد کے نطفہ سے نہ ہوگا وہی شیطان کاسر کچلیگا  اور شیطان اس کی سخت  مخالفت کریگا۔ پھر پیدائش رکوع 22 آیت 15 میں ہے کہ " تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پائینگی ۔" یعنی ابراہیم   م  کے خاندان سے وہ شخص ظاہر ہوگا  اور تمام جہان کی قومیں  اس سے برکت  پائینگی اور لعنت جو تمام جہان پر پڑی ہے  اس شخص  کے سبب سے  دفع ہوگی  اور وہ شخص  اپنی قربانی  کے وسیلہ سے یہ برکت  جاری کریگا کیونکہ اسحاق کی قربانی  کی تمثیل  کی تشریح میں یہ کہاجاتا ہے اور پیدائش  رکوع 21 آیت 12 میں ہے کہ " تیری نسل اسحاق     سے کہلائیگی ۔" نہ اسماعیل      سے پس وہ شخص موعود  اسحاق سے نکلیگا نیز پیدائش  رکوع 49 آیت 10 میں ہے کہ " یہودا سے ریاست کا اعصا جدا نہ ہوگا اور نہ حکومت  اس کے پاؤں سے جاتی رہیگی جب تک کہ  شیلا نہ آئے  اور قومیں  اس کے پاس  اکٹھی ہونگی  یعنی وہ سب قوموں کو برکت دینے والا ہے اور اب تک  پردہ غیب میں ہے۔ یہوداہ کے فرقے سے نکلیگا  (توریت شریف کتاب گنتی رکوع 24 آیت 15تا 17میں ہے کہ " پھر اس نے اپنی مثل  کہنی شروع کی اور بولا بعو کا بیٹا بلعام کہتا ہے کہ  ہاں وہ شخص  جس کی آنکھیں  کھل گئی ہیں کہتا ہے کہ  وہ جس نے خدا کی باتیں سنیں  اور حق تعالیٰ  کا علم پایا جس نے قادر مطلق  کی رویا دیکھی جو پڑا تھا پر اس کی آنکھیں  کھلی تھیں  کہتا ہے کہ  میں اسے دیکھونگا پر ابھی نہیں میں اس پر نظر کرونگا پر نہ نزدیک سے یعقوب سے ایک ستارہ نکلیگا اور اسرائیل  سے ایک عصا اٹھیگا  اور مواب کے نواحی  کو ماریگا  اور سب ہنگامہ  کرنے والوں کو ماریگا۔" پھر دیکھو استشنا رکوع 18 آیت 18 میں ہے کہ " ان کے لئے ان کے بھائيوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالونگا ۔"

          پس حضرت  موسی    ٰ کی جو بنیادی کتابیں  ہیں انہیں  میں اس شخص کا تصفیہ ہوچکا ہے کہ فرقہ یہودا سے نجات دہندہ آئیگا اور انبیا کی کتابوں میں اس سے  بھی زیادہ  تفصیل  کے ساتھ  اس کا حال لکھا ہے۔ (بائبل مقدس صحیفہ حضرت ایوب رکوع 19 آیت 23 میں ہے کہ " میری باتیں اب لکھی جاتیں کاش کہ وہ ایک دفتر میں قلمبند ہوتیں کہ وہ لوہے کہ قلم سے اور سیسے سے پتھر  پر نقش کی جاتیں  جو ابد تک  باقی رہتیں کیونکہ  مجھ کو یقین ہے کہ میرا فدیہ دینے والا  زندہ ہے  اور وہ روز آخر  زمین پر اٹھ کھڑا ہوگا اور ہر چند  کہ میرے  پوست  کے بعد میرا جسم  کرم خوردہ ہوگا  لیکن میں اپنے  گوشت میں سے خدا کو دیکھونگا میں اسے اپنے لئے دیکھونگا  اور میری یہی آنکھیں  دیکھینگی  نہ کہ بیگانہ ۔" ایوب  پیغمبر  کہتا ہے کہ  وہ فدیہ  دینے ولا زندہ ہے اور وہ آئیگا اور میں مردوں سے زندہ ہوکر اسے دیکھونگا ۔زبور شریف رکوع 2 آیت 6تا 7 میں ہے کہ " میں نے اپنے بادشاہ کو کوہ مقدس صیحون پر بٹھایاہے میں حکم کو آشکارا کرونگا کہ خداوند نے میرے حق میں فرمایا تو میرا بیٹا  ہے میں آج کے دن تیرا باپ ہوا۔" یعنی وہ آنے والا  بادشاہ  خداکا بیٹا  ہوگا۔ یسعیاہ نبی رکوع 53 میں کہتا ہے کہ " وہ ان کی بدکاریاں  اپنے اوپر اٹھایئگا۔ " یرمیاہ نبی رکوع 23 اور آیت 5و6 میں کہتا ہےکہ  دیکھو وہ دن آتے ہیں خداوند کہتا ہے کہ  میں داؤد کے لئے  صداقت  کی ایک شاخ نکال دونگا اور نیک بادشاہ  بادشاہی کریگا اور اقبالمند ہوگا اور عدالت  وصداقت  زمین پر کریگا اس کے دنوں میں یہود ا نجات پائیگا اور اسرائیل  سلامتی سے سکونت کریگا اور اس کا نام یہ رکھا جائیگا  خداوند ہماری صداقت  "یعنی وہ آنے  والا  داؤد  بادشاہ کے خاندان سے آئیگا  اور لوگ اسے اپنا فدیہ جانیں گے  اور وہ نہ صرف  انسان بلکہ خدا ہوگا۔ دانیا ل  رکوع 9 آیت 24 میں ہے کہ  "ستر ہفتے تیرے لوگوں اور تیرے شہر مقدس کے لئے  مقرر کئے گئے ہیں تاکہ  اس مدت  میں شرارت  ختم ہواور خطاکاریاں  آخر ہوجائیں  اور بدکاری کی بابت  کفارہ کیا جائے  اور ابدی راستبازی  پیش کی جائے اور اس رویا  پر اور نبوت پر مہر ہو  اور اس پر جو سب سے زيادہ قدوس ہے مسح کیا جائے۔" ستر ہفتے مسیح کی پیدائش کی تاریخ بتلاتے ہیں۔

          میکاہ رکوع 5 آیت 2سے 5 میں ہے کہ " اے بیت لحم افراتہ ہر چند کہ تو یہوداہ کےہزاروں  میں شامل ہونے کے لئے  چھوٹا ہے تو بھی تجھ سے وہ شخص  نکل کے مجھ پاس آئیگا  جو اسرائیل  میں حاکم ہوگا اور اس کا نکلنا قدیم سے ایام   الازل سے ہے تس پر بھی وہ انہیں چھوڑدیگا اس وقت تک کہ وہ جو جنے کا درد کھانے پر ہے جن چکے تب اس کے باقی  بھائی بنی اسرائيل  کے پاس  پھر آئينگے  اور وہ قائم ہوگا اور خداوند کی قدرت سے اور خداوند اپنے خدا کے نام کی بزرگی سے رعایت  کریگا  اور وہ قائم رہینگے کیونکہ اب وہ زمین کے سوانوں تک بزرگ ہوگا اور یہی سلامتی  کا باعث ہوگا۔" یعنی وہ جو آنے والا ہے اور جس کے آنے کا انتظام ازل سے مقرر ہوچکا ہے ۔ اور جس کی خبریں  پیغمبروں نے دی ہیں وہ بیت لحم میں پیدا ہوگا اور اپنا کام کرکے  پھر دنیا سے صعود کریگا اور جب وہ سب ہونے والا ہے  ہوچکیگا تب وہ  پھر آئیگا اور ابد تک  رہیگا اور سب کی سلامتی  کا باعث وہی ہوگا۔ اس کے بعد ملاکی  کی کتاب جو سارے عہد نامہ عتیق کا خاتمہ ہے اسی آنے والے  کی پیش گوئی پر ختم ہوتی ہے۔

          اور تمام کتب انبیاء  میں ا س کثرت سے اس آنے والے کا ذکر ہے کہ اس کی تفصیل  سے ایک بڑی  مجلد  کتاب بن سکتی ہے ۔

          خلاصہ یہ ہے کہ  پرانا عہد نامہ  انسان کی نجات کا انحصار  ایک آنے والے شخص  پر موقوف کرتا ہے  اور نیز  اس بات پر کہ اس کی قربانی کے وسیلہ سے سب ایماندار  نجات پائینگے ۔

اس کی توضیح یوں ہے کہ

          عہد عتیق  نجات کا وسیلہ ایک خاص قربانی کو بتلاتا ہے ۔ چنانچہ آدم کے زمانہ سے لے کر مسیح کے ظہور تک قربانی ہی نجات کا وسیلہ سمجھی گئی ہے۔

          قربانی کے معنی ہیں وہ چیزجس کے وسیلہ سے خدا کی قربت  حاصل ہو مگر  مسیحیوں  کی اصطلاح  میں اس کے معنی یہ ہیں کہ جان کے بدلہ جان دے کر بچنا۔

          گو عقل یہ کہتی ہے کہ خدا کے فضل سے بچ سکتے ہیں لیکن فضل کی تخصیص  نہیں کرسکتی ہے۔

          لیکن بائبل اس کی تخصیص  کرتی ہے کہ یہی فضل ہے کہ آدمی  کی جان کے بدلے خدا کسی دوسرے کی جان کو لے لے اور آدمی بچ جائے۔

بائبل ایک عجیب قسم کی قربانی بتلاتی ہے

          جس کی گہرائی  پر نظر کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ  وہ فضل  جس کو عقل  چاہتی ہے  یہی قربانی ہے اور بس ۔

دفعات ِ ذیل پر غور کیجئے

(۱)الہیٰ عدالت کا انسان پر یہ فتویٰ ہے کہ اپنا قرضہ پورا ادا کردے یا مارا جائے  ۔ لیکن پورا قرضہ ادا کرنا انسان کے لئے محال ہے لہذا ہمشہ تک  غضب الہیٰ  میں رہنا اس کے لئے  ضروری ہے جس کو ہم اپنی اصطلاح  میں موت کہتےہیں۔ اب بجز  اس کے کہ انسان خدا کے رحم پر بھروسہ رکرے اور کوئی چارہ نہیں  لیکن رحم اور عدل ایک ساتھ جاری نہیں ہوسکتے لہذا عقل  اس مسئلہ میں بالکل  خاموش ہے ۔

(۲)لیکن بائبل  مقدس اس مشکل  مسئلہ کو یوں حل کرتی ہے کہ  ایک جان کے عوض میں دوسری جان بطور کفارہ سزا اٹھاسکتی ہے تاکہ رحم اور عدل کا اقتضا پورا ہو لیکن شرائط ذيل:

(۳)پہلی شرط یہ ہے کہ وہ دوسرا جو کفارہ دیتا ہے۔ سراسر گناہوں سے پاک صاف اور معصوم ہو۔

(۴)دوسری شرط یہ ہے کہ وہ قربانی مبادلہ کی صورت میں یعنی اپنی نیکی  تجھے دے اور تیری بدی آپ اٹھائے  اور اپنی مرضی سے ۔

(۵)ا س قسم کی قربانی کا قبول ہوجانا یقینی ہے کیونکہ  آسمانی آگ جو  خدا کاغضب ہے وہ اس قربانی کو بھسم کر ڈالیگی  اور گنہگار  بچ جائیگا۔

(۶) لیکن عہد عتیق  کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح  کے پیدا ہونے  سے قبل  آدمی کے بدلے  جانور ذبح کئے جاتے تھے حالانکہ مناسب یہ تھا کہ  آدمی کے بدلے آدمی ذبح کیا جاتا اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی شرط کے رو سے کوئی آدمی بے عیب نہ تھا اس لئے بے عیب جانور کی تلاش  ہوتی تھی  لیکن جب بے عیب  انسان پیدا ہوا تو بے عیب جانوروں کی ضرورت نہ رہی۔ بمصداق  آنکہ آب آمد تیمم برخاست ۔

(۷)بے عیب انسان کے بدلے میں بے عیب جانور اس لئے  ذبح کیا گیا تھا کہ  جانوروں سے انسان کی پرورش ہوتی  ہے اور جس طرح  کہ تمام رسمی شریعت  جسمانی تھی اور روحانی مطلب  پر اشارہ  کرتی تھی  اسی طرح  جانوروں کی قربانی بھی حقیقی قربانی پر اشارہ کرتی تھی کہ  انسانی روح کی پرورش  اس بے عیب  انسان کی قربانی سے ہوتی ہے۔

(۸)یہی وجہ ہے کہ  ان جانوروں کی قربانی سے لوگ کامل صحت نہیں پاسکتے تھے کیونکہ وہ حقیقی  قربانی نہ تھی بلکہ حقیقی قربانی کا عکس تھا یا بعبارت دیگر مجازی قربانی حقیقی  قربانی کے قائم مقام تھی۔

(۹) آدمی اور جانور میں کیا برابری تھی کچھ بھی نہیں کیا جانور انسان کے مساوی ہوسکتا ہے ہر گز نہیں  اور نہ جانور اپنی مرضی کا اظہار کرسکتا ہے کہ وہ خوشی  سے انسان کا فدیہ  ہورہا ہے ۔ اس رسم کے مقرر کرنے سے خدا کی مرضی یہی تھی کہ انسان حقیقی  قربانی کے لئے  تیار کیا جائے لیکن معرفت سے بے بہرہ  لوگ اسی کو اصل سمجھتے تھے  اور یہ ان کی غلط فہمی تھی ۔

(۱۰)خداکا مطلب  تھا کہ  ایک نیا آدمی  گناہ کے سلسلے  سے الگ ہوکر  عورت کی نسل سے پیدا ہو جس میں موروثی  اکتسابی گناہ نہ ہو  اور کامل انسان ہو ۔ تاکہ  سارے جہان  کے گناہ  کے لئے  قربان ہو اور اس کی قربانی  سےبائبل کی تمام گذشتہ قربانیاں تکمیل پائیں اور آئندہ  کو وہی سب کے حق میں کامل قربانی ہو اور اسی کی قربانی سے برگزیدوں  کی تمام روحیں  غذا حاصل کریں۔

(۱۱)چونکہ انسان میں یہ طاقت نہ تھی  کہ سارے جہان کے گناہوں  کا بوجھ اٹھائے  اور خدا کا سارا قہر جو تمام گنہگاروں پرنازل ہونے والا ہے سہار سکے۔ اس لئے اس نے اس کی انسانیت  کے ساتھ  اپنی الوہیت  کو بھی شامل کیا اور اقنوم ثانی  نے جسم اختیار کیا تاکہ  اس بھاری مہم کو فتح کرے۔

(۱۲)جب اقنوم ثانی اس مقصد کے لئے مجسم ہوکر آیا تو صاف ظاہر ہے کہ وہ ارادةً   ہمارافدیہ  ہوا۔

(۱۳)اب ہماری طرف سے بھی اس ارادہ  کی ضرورت ہے کہ ہم اس پر ایمان کے ہاتھ رکھیں تاکہ  مبادلہ کی شرط پوری ہو۔

(۱۴)یہی کامل قربانی  ہے کہ کیونکہ  آدمی کے بدلہ میں آدمی لیا جاتا ہے نہ جانور اور آدمی بھی معصوم ہے مبادلہ کا ارادہ بھی ہے اور اب صرف ہماری قبولیت کی شرط باقی ہے۔

(۱۵)یہ شخص اپنی پاکیزگی اور راستبازی ہمیں عنایت کرتا ہے اور ہمارے گناہوں کو لے کر غضب الہیٰ کی آگ میں جلادیتا ہے ۔

(۱۶)ایک آدمی کے سبب سب پر غضب آیا تھا اب ایک ہی آدمی کے سبب سے سب پر برکت آتی ہے۔

(۱۷)یہ قربانی دینے والا شخص  سیدنامسیح ہے جو قدوس ہے وہ سب کے گناہوں  کے لئے  کفارہ  ہوا اور خدا کے غضب  سے ہمیں  رستگاری  بخشی  ۔

(۱۸)جب سے اس نے اپنی قربانی گذرانی ہے تب سے کروڑوں  روحیں  گناہوں سے سبکبار ہوگئیں اور اس کی پاکیزگی  نے یہ ثابت کردیا کہ اس نےہمارے  ساتھ حقیقی  مبادلہ کرلیا ہے۔ پس لازم  بلکہ فرض ہے کہ  آپ اس شخص کے متعلق  دیانت  اور صداقت  کے ساتھ غور خوض کریں۔

Posted in: مسیحی تعلیمات, بائبل مُقدس, یسوع ألمسیح, خُدا | Tags: | Comments (0) | View Count: (16387)
Comment function is not open